ترجمة سورة البروج

محمد جوناگڑھی - Urdu translation

ترجمة معاني سورة البروج باللغة الأردية من كتاب محمد جوناگڑھی - Urdu translation.

بروج


برجوں والے آسمان کی قسم!

وعده کیے ہوئے دن کی قسم!

حاضر ہونے والے اور حاضر کئے گئے کی قسم!

﴿کہ﴾ خندقوں والے ہلاک کیے گئے

وه ایک آگ تھی ایندھن والی

جب کہ وه لوگ اس کے آس پاس بیٹھے تھے

اور مسلمانوں کے ساتھ جو کر رہے تھے اس کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے

یہ لوگ ان مسلمانوں (کے کسی اور گناه کا) بدلہ نہیں لے رہے تھے، سوائے اس کے کہ وه اللہ غالب ﻻئق حمد کی ذات پر ایمان ﻻئے تھے

جس کے لئے آسمان وزمین کا ملک ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے ہر چیز

بیشک جن لوگوں نے مسلمان مردوں اور عورتوں کو ستایا پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور جلنے کا عذاب ہے

بیشک ایمان قبول کرنے والوں اور نیک کام کرنے والوں کے لئے وه باغات ہیں۔ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ یہی بڑی کامیابی ہے

یقیناً تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے

وہی پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے اور وہی دوباره پیدا کرے گا

وه بڑا بخشش کرنے واﻻ اور بہت محبت کرنے واﻻ ہے

عرش کا مالک عظمت واﻻ ہے

جو چاہے اسے کر گزرنے واﻻ ہے

تجھے لشکروں کی خبر بھی ملی ہے؟

(یعنی) فرعون اور ﺛمود کی

(کچھ نہیں) بلکہ کافر تو جھٹلانے میں پڑے ہوئے ہیں

اور اللہ تعالیٰ بھی انہیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے

بلکہ یہ قرآن ہے بڑی شان واﻻ

لوح محفوظ میں (لکھا ہوا)
سورة البروج
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورة (البُرُوج) من السُّوَر المكية، وقد افتُتحت ببيان قدرة الله عز وجل وعظمتِه، ثم جاءت على ذكرِ قصة (أصحاب الأخدود)، وهم قومٌ فتَنوا فريقًا ممن آمن بالله، فجعلوا أُخدودًا من نار لتعذيبهم؛ وذلك تثبيتًا لقلوب الصحابة على أمرِ هذه الدعوة، وأن اللهَ - بعظمتِه وسلطانه - الذي أقام السماءَ والأرض صاحبَ البطش الشديد معهم وناصرُهم، وكان صلى الله عليه وسلم يقرأ هذه السورةَ في الظُّهر والعصر.

ترتيبها المصحفي
85
نوعها
مكية
ألفاظها
109
ترتيب نزولها
27
العد المدني الأول
22
العد المدني الأخير
22
العد البصري
22
العد الكوفي
22
العد الشامي
22

* سورة (البُرُوج):

سُمِّيت سورة (البُرُوج) بهذا الاسم؛ لافتتاحها بقوله تعالى: {وَاْلسَّمَآءِ ذَاتِ اْلْبُرُوجِ} [البروج: 1]؛ وهي: الكواكبُ السيَّارة.

* كان صلى الله عليه وسلم يقرأ في الظُّهر والعصر بسورة (البُرُوج):

عن جابرِ بن سَمُرةَ رضي الله عنه: «أنَّ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم كان يَقرأُ في الظُّهْرِ والعصرِ بـ{وَاْلسَّمَآءِ وَاْلطَّارِقِ}، {وَاْلسَّمَآءِ ذَاتِ اْلْبُرُوجِ}، ونحوِهما مِن السُّوَرِ». أخرجه أبو داود (٨٠٥).

1. قصة (أصحاب الأخدود) (١-٩).

2. التمييز بين الطائعين والعاصين (١٠-١١).

3. مشيئة الله تعالى، ونَفاذُ قُدْرته (١٢-٢٢).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (9 /90).

يقول ابن عاشور: «... ضرب المثَلِ للذين فتنوا المسلمين بمكة بأنهم مثلُ قوم فتَنوا فريقًا ممن آمن بالله، فجعلوا أخدودًا من نار لتعذيبِهم؛ ليكون المثلُ تثبيتًا للمسلمين، وتصبيرًا لهم على أذى المشركين، وتذكيرًا لهم بما جرى على سلَفِهم في الإيمان من شدة التعذيب الذي لم يَنَلْهم مثلُه، ولم يصُدَّهم ذلك عن دِينهم.

وإشعار المسلمين بأن قوةَ الله عظيمةٌ؛ فسيَلقَى المشركون جزاءَ صنيعهم، ويَلقَى المسلمون النعيمَ الأبدي والنصر.
والتعريض للمسلمين بكرامتهم عند الله تعالى.
وضرب المثلِ بقوم فرعون، وبثمود، وكيف كانت عاقبة أمرهم لمَّا كذبوا الرسل؛ فحصلت العِبرة للمشركين في فَتْنِهم المسلمين، وفي تكذيبهم الرسولَ صلى الله عليه وسلم، والتنويه بشأن القرآن». "التحرير والتنوير" لابن عاشور (30 /236).