ترجمة سورة الشرح

الترجمة الأردية

ترجمة معاني سورة الشرح باللغة الأردية من كتاب الترجمة الأردية.
من تأليف: محمد إبراهيم جوناكري .

کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھول دیا.*
____________________
* گزشتہ سورت میں تین انعامات کا ذکر تھا، اس سورت میں مزید تین احسانات جتلائے جا رہے ہیں۔ سینہ کھول دینا، ان میں پہلا ہے۔ اس کا مطلب ہے سینے کا منور اور فراخ ہو جانا، تاکہ حق واضح بھی ہو جائے اور دل میں سما بھی جائے۔ اسی مفہوم میں قرآن کریم کی یہ آیت فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلإِسْلامِ (سورة الأنعام: 125 ) ”جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت سے نوازنے کا ارادہ کرے۔ اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے“۔ یعنی وہ اسلام کو دین حق کے طور پرپہچان بھی لیتا ہے اور اسے قبول بھی کر لیتا ہے۔ اس شرح صدر میں وہ شق صدر بھی آجاتا ہے جو معتبر روایات کی رو سے دو مرتبہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کا کیا گیا۔ ایک مرتبہ بچپن میں، جب کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) عمر کے چوتھے سال میں تھے۔ حضرت جبرائیل (عليه السلام) آئے اور انہوں نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کا دل چیرا اور اس سے وہ حصہ شیطانی نکال دیا جو ہر انسان کے اندر ہے، پھر اسے دھوکر بند کر دیا، ( صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب الإسراء) دوسری مرتبہ معراج کے موقعے پر۔ اس موقعے پر آپ (صلى الله عليه وسلم) کا سینہ مبارک چاک کرکے دل نکالا گیا، اسے آپ زمزم سے دھوکر اپنی جگہ رکھ دیا گیااور اسےایمان وحکمت سے بھر دیا گیا۔ (صحيحين، أبواب المعراج وكتاب الصلاة) ۔
اور تجھ پر سے تیرا بوجھ ہم نے اتار دیا.*
____________________
* یہ بوجھ نبوت سے قبل چالیس سالہ دور زندگی سے متعلق ہے۔ اس دور میں اگرچہ اللہ نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو گناہوں سے محفوظ رکھا، کسی بت کے سامنے آپ (صلى الله عليه وسلم) سجدہ ریز نہیں ہوئے، کبھی شراب نوشی نہیں کی اور بھی دیگر برائیوں سے دامن کش رہے، تاکہ معروف معنوں میں اللہ کی عبادت واطاعت کا نہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کو علم تھا نہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے کی۔ اس لئے آپ (صلى الله عليه وسلم) کے دل ودماغ پر اس چالیس سالہ عدم عبادت وعدم اطاعت کا بوجھ تھا، جو حقیقت میں تو نہیں تھا، لیکن آپ (صلى الله عليه وسلم) کے احساس وشعور نے اسے بوجھ بنا رکھا تھا۔ اللہ نے اسے اتار دینے کا اعلان فرما کر آپ (صلى الله عليه وسلم) پر احسان فرمایا۔ یہ گویا وہی مفہوم ہے جو لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ (سورة الفتح) کا ہے۔ بعض کہتے ہیں، یہ نبوت کا بوجھ تھا، جسے اللہ نے ہلکا کر دیا، یعنی اس راہ کی مشکلات برداشت کرنے کا حوصلہ اور تبلیغ ودعوت میں آسانیاں پیدا فرما دیں۔
جس نے تیری پیٹھ توڑ دی تھی.
اور ہم نے تیرا ذکر بلند کر دیا.*
____________________
* یعنی جہاں اللہ کا نام آتا ہے وہیں آپ (صلى الله عليه وسلم) کا نام بھی آتا ہے۔ مثلاً اذان، نماز اور دیگر بہت سے مقامات پر، گزشتہ کتابوں میں آپ (صلى الله عليه وسلم) کا تذکرہ اور صفات کی تفصیل ہے، فرشتوں میں آپ (صلى الله عليه وسلم) کا ذکر خیر ہے، آپ (صلى الله عليه وسلم) کی اطاعت کو اللہ نے اپنی اطاعت قرار دیا اور اپنی اطاعت کے ساتھ ساتھ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی اطاعت کا بھی حکم دیا، وغیرہ ۔
پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے.
بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے.*
____________________
* یہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کے لئے اور صحابہ (رضي الله عنهم) کے لئے خوشخبری ہے کہ تم اسلام کی راہ میں جو تکلیفیں برداشت کر رہے ہو تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد ہی اللہ تمہیں فراغت وآسانی سے نوازے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، جسے ساری دنیا جانتی ہے۔
پس جب تو فارغ ہو تو عبادت میں محنت کر.*
____________________
* یعنی نماز سے، یا تبلیغ سے یا جہاد سے، تو دعا میں محنت کر، یا اتنی عبادت کر کہ تو تھک جائے۔
اور اپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگا.*
____________________
* یعنی اسی سے جنت کی امید رکھ، اسی سے اپنی حاجتیں طلب کر اور تمام معاملات میں اسی پر اعتماد اور بھروسہ رکھ۔
سورة الشرح
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورة (الشَّرْحِ) من السُّوَر المكية، نزلت بعد سورة (الضُّحى)، واتفقت معها في موضوعها العامِّ؛ فجاءت بذكرِ إنعام الله على نبيِّه صلى الله عليه وسلم، وذكَرتْ مظاهرَ عناية الله به صلى الله عليه وسلم، فكأنها تكملة لسورة (الضُّحى).

ترتيبها المصحفي
94
نوعها
مكية
ألفاظها
27
ترتيب نزولها
12
العد المدني الأول
8
العد المدني الأخير
8
العد البصري
8
العد الكوفي
8
العد الشامي
8

* (الشَّرْح) أو (الانشراح):

سُمِّيت سورة (الشَّرْح) أو (الانشراح) بهذا الاسم؛ لافتتاحها بقوله تعالى: {أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ} [الشرح: 1].

1. نِعَمُ الله تعالى على نبيِّه صلى الله عليه وسلم (١-٦).
2. ما تستوجبه تلك النِّعَم (٧-٨).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (9 /220).

عنايةُ الله بنبيِّه صلى الله عليه وسلم، وفضلُه وإنعامه عليه؛ رفعًا لقدره، وتسليةً وتصبيرًا له.

ينظر: "التحرير والتنوير" لابن عاشور (30 /407).