ترجمة سورة التحريم

الترجمة الأردية

ترجمة معاني سورة التحريم باللغة الأردية من كتاب الترجمة الأردية.
من تأليف: محمد إبراهيم جوناكري .

اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کر دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں*؟ (کیا) آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے واﻻ رحم کرنے واﻻ ہے.
____________________
* نبی (صلى الله عليه وسلم) نے جس چیز کو اپنے لئے حرام کرلیا تھا، وہ کیا تھی؟ جس پر اللہ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ اس سلسلے میں ایک تو وہ مشہور واقعہ ہے جو صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں نقل ہوا ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) حضرت زینب بنت جحش (رضی الله عنها) کے پاس کچھ دیر ٹھہرتے اور وہاں شہد پیتے، حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ ب دونوں نے وہاں معمول سے زیادہ دیر تک آپ (صلى الله عليه وسلم)کو ٹھہرنے سے روکنے کے لئے یہ سکیم تیار کی کہ ان میں سے جس کے پاس بھی آپ (صلى الله عليه وسلم) تشریف لائیں تو وہ ان سے کہے کہ اللہ کے رسول! آپ (صلى الله عليه وسلم) کے منہ سے مغافیر (ایک قسم کا پھول جس میں بساند ہوتی ہے) کی بو آرہی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا، میں نے تو زینب (رضی الله عنها)کے گھر صرف شہد پیا ہے۔ اب میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ نہیں پیوں گا، لیکن یہ بات تم کسی کو مت بتلانا۔ صحیح بخاری۔ سنن نسائی میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایک لونڈی تھی جس کو آپ (صلى الله عليه وسلم)نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا (سنن نسائی) جب کہ کچھ دوسرے علماء اسے ضعیف قرار دیتے ہیں اس کی تفصیل دوسری کتابوں میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ یہ حضرت ماریہ قبطیہ (رضی الله عنها)تھیں جن سے نبی (صلى الله عليه وسلم) کے صاحبزادے ابراہیم (عليه السلام)تولد ہوئے تھے، یہ ایک مرتبہ حضرت حفصہ (رضی الله عنها)کے گھر آگئی تھیں جب کہ حضرت حفصہ (رضی الله عنها) موجود نہیں تھیں اتفاق سے انہی کی موجودگی میں حضرت حفصہ (رضی الله عنها) آگئیں انہیں نبی (صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ اپنے گھر میں خلوت میں دیکھنا ناگوار گزرا۔ جسے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بھی محسوس فرمایا جس پر آپ (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت حفصہ (رضی الله عنها) کو راضی کرنے کے لیے قسم کھا کر ماریہ ر(رضی الله عنها) کو اپنے اوپر حرام کرلیا اور حفصہ (رضی الله عنها)کو تاکید کی کہ وہ یہ بات کسی کو نہ بتلائے امام ابن حجر ایک تو یہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ مختلف طرق سے نقل ہوا ہے جو ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں دوسری بات وہ یہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے بیک وقت دونوں ہی واقعات اس آیت کے نزول کا سبب بنے ہوں۔ فتح الباری۔ امام شوکانی نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا ہے اور دونوں کو صحیح قرار دیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام کرنے کا اختیار کسی کے پاس بھی نہیں ہے حتی کہ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) بھی یہ اختیار نہیں رکھتے۔
تحقیق کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے قسموں کو کھول ڈالنا مقرر کر دیا ہے* اور اللہ تمہارا کارساز ہے اور وہی (پورے) علم واﻻ، حکمت واﻻ ہے.
____________________
* یعنی کفارہ ادا کرکے اس کام کو کرنے کی، جس کی نہ کرنے کی قسم کھائی ہو، اجازت دے دی، قسم کا یہ کفارہ سورۃ مائد ۃ۔ 89 میں بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بھی کفارہ ادا کیا (فتح القدیر) اس امر میں علماء کے مابین اختلاف ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے تو اس کا یہ حکم ہے؟ جمہور علماء کے نزدیک بیوی کے علاوہ کسی چیز کو حرام کرنے سے وہ چیز حرام ہوگی اور نہ اس پر کفارہ ہے، اگر بیوی کو اپنے اوپر حرام کرے گا تو اس سے اس کا مقصد اگر طلاق ہے تو طلاق ہو جائے گی اور اگر طلاق کی نیت نہیں ہے تو راجح قول کے مطابق یہ قسم ہے، اس کے لئے کفارہ کی ادائیگی ضروری ہے۔ (ایسر التفاسیر)۔
اور یاد کر جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے ایک پوشیده بات کہی*، پس جب اس نے اس بات کی خبر کر دی** اور اللہ نے اپنے نبی کو اس پر آگاه کر دیا تو نبی نے تھوڑی سی بات تو بتا دی اور تھوڑی سی ٹال گئے***، پھر جب نبی نے اپنی اس بیوی کو یہ بات بتائی تو وه کہنے لگی اس کی خبر آپ کو کس نے دی****۔ کہا سب جاننے والے پوری خبر رکھنے والے اللہ نے مجھے یہ بتلایا ہے.*****
____________________
* وہ پوشیدہ بات شہد کو یا ماریہ (رضی الله عنها)کو حرام کرنے والی بات تھی جو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت حفصہ (رضی الله عنها)سے کی تھی۔
**- یعنی حفصہ (رضی الله عنها)نے وہ بات حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کو جاکر بتلا دی۔
***- یعنی حفصہ (رضی الله عنها)کو بتلا دیا کہ تم نے میرا راز فاش کر دیا ہے۔ تاہم اپنی تکریم و عظمت کے پیش نظر ساری بات بتانے سے اعراض فرمایا۔
****- جب نبی (صلى الله عليه وسلم) نے حفصہ (رضی الله عنها) کو بتلایا کہ تم نے میرا راز ظاہر کر دیا ہے تو وہ حیران ہوئیں کیونکہ انہوں نے حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کے علاوہ کسی کو یہ بات نہیں بتلائی تھی اور عائشہ (رضی الله عنها)سے انہیں یہ توقع نہیں تھی کہ وہ آپ(صلى الله عليه وسلم) کو بتلا دیں گی، کیونکہ وہ شریک معاملہ تھیں۔
*****- اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے علاوہ بھی آپ (صلى الله عليه وسلم) پر وحی کا نزول ہوتا تھا۔
(اے نبی کی دونوں بیویو!) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرلو (تو بہت بہتر ہے*) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں** اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی پس یقیناً اس کا کارساز اللہ ہے اور جبریل ہیں اور نیک اہل ایمان اور ان کے علاوه فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں.***
____________________
* یا تمہاری توبہ قبول کر لی جائے گی یہ شرط ان تتوبا کا جواب محذوف ہے۔
**- یعنی حق سے ہٹ گئے ہیں اور وہ ہے ان کا ایسی چیز پسند کرنا جو نبی (صلى الله عليه وسلم) کے لئے ناگوار تھی (فتح القدیر)۔
***- یعنی نبی (صلى الله عليه وسلم) کے مقابلے میں تم جتھہ بندی کروگی تو نبی کا کچھ نہیں بگاڑ سکو گی، اس لئے کہ نبی کا مددگار تو اللہ بھی ہے اور مومنین اور ملائکہ بھی۔
اگر وه (پیغمبر) تمہیں طلاق دے دیں تو بہت جلد انہیں ان کا رب! تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں عنایت فرمائے گا*، جو اسلام والیاں، ایمان والیاں اللہ کے حضور جھکنے والیاں توبہ کرنے والیاں، عبادت بجا ﻻنے والیاں روزے رکھنے والیاں ہوں گی بیوه اور کنواریاں.**
____________________
* یہ تنبیہ کے طور پر ازواج مطہرات کو کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے پیغمبر کو تم سے بھی بہتر بیویاں عطا کرسکتا ہے۔
**- ثیبات۔ثیب کی جمع ہے (لوٹ آنے والی) بیوہ عورت کو ثیب اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ خاوند سے واپس لوٹ آتی ہے اور پھر اس طرح بےخاوند رہ جاتی ہے جیسے پہلے تھی ابکار بکر کی جمع ہے کنواری عورت اسے بکر اسی لیے کہتے ہیں کہ یہ ابھی اپنی اسی پہلی حالت پر ہوتی ہے جس پر اس کی تخلیق ہوتی ہے فتح القدیر۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ثیب سے حضرت آسیہ فرعون کی بیوی اور بکر سے حضرت مریم حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی والدہ مراد ہیں یعنی جنت میں ان دونوں کو نبی (صلى الله عليه وسلم) کی بیویاں بنا دیا جائے گا ممکن ہے کہ ایسا ہو لیکن ان روایات کی بنیاد پر ایسا خیال رکھنا یا بیان کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ سندا یہ روایات پایہ اعتبار سے ساقط ہیں۔
اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ* جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا ﻻتے ہیں.
____________________
* اس میں اہل ایمان کو ان کی ایک نہایت اہم ذمے داری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور وہ ہے اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی اصلاح اور ان کی اسلامی تعلیم وتربیت کا اہتمام تاکہ یہ سب جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب بچہ سات سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اسے نماز کی تلقین کرو اور دس سال عمر کے بچوں میں نماز سے تساہل دیکھو تو انہیں سرزنش کرو سنن ابی داؤد۔ فقہا نے کہا ہے اسی طرح روزے ان سے رکھوائے جائیں اور دیگر احکام کے اتباع کی تلقین انہیں کی جائے تاکہ جب وہ شعور کی عمر کو پہنچیں تو اس دین حق کا شعور بھی انہیں حاصل ہو چکا ہو۔ ابن کثیر۔
اے کافرو! آج تم عذر وبہانہ مت کرو۔ تمہیں صرف تمہارے کرتوت کا بدلہ دیا جارہا ہے.
اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو*۔ قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناه دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور ایمان والوں کو جو ان کے ساتھ ہیں رسوا نہ کرے گا۔ ان کا نور ان کے سامنے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا۔ یہ دعائیں کرتے ہوں گے اے ہمارے رب ہمیں کامل نور عطا فرما** اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے.
____________________
* خالص توبہ یہ ہے کہ، 1- جس گناہ سے توبہ کر رہا ہے، اسے ترک کر دے۔ 2- اس پر اللہ کی بارگاہ میں ندامت کا اظہار کرے، 3- آئندہ اسے نہ کرنے کا عزم رکھے، 4- اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو جس کا حق غصب کیا ہے اس کا ازالہ کرے، جس کے ساتھ زیادتی کی ہے اس سے معافی مانگے، محض زبان سے توبہ توبہ کر لینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
**- یہ دعا اہل ایمان اس وقت کریں جب منافقین کا نور بجھا دیا جائے گا، جیسا سورہ حدید میں تفصیل گزری، اہل ایمان کہیں گے، جنت میں داخل ہونے تک ہمارے اس نور کو باقی رکھ اور اس کا اتمام فرما۔
اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو* اور ان پر سختی کرو** ان کا ٹھکانا جہنم ہے*** اور وه بہت بری جگہ ہے.
____________________
* کفار کے ساتھ جہاد، و قتال کے ساتھ اور منافقین سے، ان پر حدود الٰہی قائم کرکے، جب وہ ایسے کام کریں جو موجب حد ہوں۔
**- یعنی دعوت وتبلیغ میں سختی اور احکام شریعت میں درشتی اختیار کریں کیونکہ یہ لاتوں کے بھوت ہیں جو باتوں سے ماننے والے نہیں ہیں اس کا مطلب ہے کہ حکمت تبلیغ کبھی نرمی کی متقاضی ہوتی ہے اور کبھی سختی کی ہر جگہ نرمی بھی مناسب نہیں اور ہر جگہ سختی بھی مفید نہیں رہتی تبلیغ ودعوت میں حالات وظروف اور اشخاص وافراد کے اعتبار سے نرمی یا سختی کرنے کی ضرورت ہے۔
***- یعنی کافروں اور منافقوں دونوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے نوح کی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی* یہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو (شائستہ اور) نیک بندوں کے گھر میں تھیں، پھر ان کی انہوں نے خیانت کی** پس وه دونوں (نیک بندے) ان سے اللہ کے (کسی عذاب کو) نہ روک سکے*** اور حکم دے دیا گیا (اے عورتوں) دوزخ میں جانے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی چلی جاؤ.****
____________________
* مثل کا مطلب ہے کسی ایسی حالت کا بیان کرنا جس میں ندرت وغرابت ہوتا کہ اس کے ذریعے سے ایک دوسری حالت کا تعارف ہو جائے جو ندرت وغرابت میں اس کے مماثل ہو مطلب یہ ہوا کہ ان کافروں کے حال کے لیے اللہ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے جو نوح اور لوط علیہما السلام کی بیوی کی ہے۔
**- یہاں خیانت سے مراد ہے کہ یہ اپنے خاوندوں پر ایمان نہیں لائیں نفاق میں مبتلا رہیں اور ان کی ہمدردیاں اپنی کافر قوموں کے ساتھ رہیں چنانچہ نوح (عليه السلام) کی بیوی، حضرت نوح (عليه السلام) کی بابت لوگوں سے کہتی کہ یہ مجنون ہے اور لوط (عليه السلام) کی بیوی اپنی قوم کو گھر میں آنے والے مہمانوں کی اطلاع پہنچاتی تھی بعض کہتے ہیں کہ یہ دونوں اپنی قوم کے لوگوں میں اپنے خاوندوں کی چغلیاں کھاتی تھیں۔
***- یعنی نوح اور لوط علیہما السلام دونوں، باوجود اس بات کے کہ وہ اللہ کے پیغمبر تھے، جو اللہ کے مقرب ترین بندوں میں سے ہوتے ہیں، اپنی بیویوں کو اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکے۔
****- یہ انہیں قیامت والے دن کہا جائے گا یا موت کے وقت انہیں کہا گیا کافروں کی یہ مثال بطور خاص یہاں ذکر کرنے سے مقصود ازواج مظہرات کو تنبیہ کرنا ہے کہ وہ بیشک اس رسول کے حرم کی زینت ہیں جو تمام مخلوق میں سب سے بہتر ہے لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر انہوں نے رسول کی مخالفت کی یا انہیں تکلیف پہنچائی تو وہ بھی اللہ کی گرفت میں آسکتی ہیں اور اگر ایسا ہوگیا تو پھر کوئی ان کو بچانے والا نہیں ہوگا۔
اور اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان فرمائی* جبکہ اس نے دعا کی کہ اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں مکان بنا اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا اور مجھے ﻇالم لوگوں سے خلاصی دے.
____________________
* یعنی ان کی ترغیب ثبات قدمی، استقامت فی الدین اور شدائد میں صبر کے لئے۔ نیز یہ بتلانے کے لئے کہ کفر کی صولت و شوکت، ایمان والوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، جیسے فرعون کی بیوی ہے جو اپنے وقت کے سب سے بڑے کافر کے تحت تھی۔ لیکن وہ اپنی بیوی کو ایمان سے نہیں روک سکا۔
اور (مثال بیان فرمائی) مریم بنت عمران کی* جس نے اپنے ناموس کی حفاﻇت کی پھر ہم نے اپنی طرف سے اس میں جان پھونک دی اور (مریم) اس نے اپنے رب کی باتوں** اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور عبادت گزاروں میں سے تھی.***
____________________
* حضرت مریم علیہا السلام کے ذکر سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ باوجود اس بات کے کہ وہ ایک بگڑی ہوئی قوم کے درمیان رہتی تھی، لیکن اللہ نے انہیں دنیا و آخرت میں شرف و کرامت سے سرفراز فرمایا اور تمام جہان کی عورتوں پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔
**- کلمات رب سے مراد شرائع الہی ہیں۔
***- یعنی ایسے لوگوں میں سے یا خاندان میں سے تھیں جو فرماں بردار عبادت گزار اور صلاح واطاعت میں ممتاز تھا حدیث میں ہے جنتی عورتوں میں سب سے افضل حضرت خدیجہ، حضرت فاطمہ، حضرت مریم اور فرعون کی بیوی آسیہ ہیں رضی اللہ عنھن۔(مسند احمد) ایک دوسری حدیث میں فرمایا مردوں میں تو کامل بہت ہوئے ہیں مگر عورتوں میں کامل صرف فرعون کی بیوی آسیہ مریم بنت عمران اور خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھن ہیں اور عائشہ (رضي الله عنه) ا کی فضلیت عورتوں پر ایسے ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر فضلیت حاصل ہے۔ صحیح بخاری۔
سورة التحريم
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورة (التحريم) من السُّوَر المدنيَّة، نزلت بعد سورة (الحُجُرات)، وقد عاتَبَ اللهُ فيها النبيَّ صلى الله عليه وسلم بسبب تحريمه العسلَ على نفسه إرضاءً لزوجاته، وورَد فيها النهيُ عن أن يُحرِّمَ أحدٌ شيئًا على نفسه لإرضاء أحدٍ؛ فلا قُرْبةَ في ذلك، وكذا فيها تنبيهٌ لنساء النبي صلى الله عليه وسلم ولكل المؤمنين على التزام الأدب مع الله، ومع رسوله صلى الله عليه وسلم.

ترتيبها المصحفي
66
نوعها
مدنية
ألفاظها
254
ترتيب نزولها
107
العد المدني الأول
12
العد المدني الأخير
12
العد البصري
12
العد الكوفي
12
العد الشامي
12

قوله تعالى: {يَٰٓأَيُّهَا اْلنَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ اْللَّهُ لَكَۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَٰجِكَۚ وَاْللَّهُ غَفُورٞ رَّحِيمٞ ١ قَدْ فَرَضَ اْللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَٰنِكُمْۚ وَاْللَّهُ مَوْلَىٰكُمْۖ وَهُوَ اْلْعَلِيمُ اْلْحَكِيمُ ٢ وَإِذْ أَسَرَّ اْلنَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَٰجِهِۦ حَدِيثٗا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِۦ وَأَظْهَرَهُ اْللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُۥ وَأَعْرَضَ عَنۢ بَعْضٖۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِۦ قَالَتْ مَنْ أَنۢبَأَكَ هَٰذَاۖ قَالَ نَبَّأَنِيَ اْلْعَلِيمُ اْلْخَبِيرُ ٣ إِن تَتُوبَآ إِلَى اْللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَاۖ وَإِن تَظَٰهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اْللَّهَ هُوَ مَوْلَىٰهُ وَجِبْرِيلُ وَصَٰلِحُ اْلْمُؤْمِنِينَۖ وَاْلْمَلَٰٓئِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ} [التحريم: 1-4]:

عن عائشةَ أمِّ المؤمنين رضي الله عنها: «أنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلم كان يمكُثُ عند زَيْنبَ بنتِ جَحْشٍ، ويَشرَبُ عندها عسَلًا، فتواصَيْتُ أنا وحَفْصةُ: أنَّ أيَّتَنا دخَلَ عليها النبيُّ صلى الله عليه وسلم، فَلْتقُلْ: إنِّي أجدُ منك رِيحَ مَغافيرَ، أكَلْتَ مَغافيرَ؟! فدخَلَ على إحداهما، فقالت له ذلك، فقال: «لا، بل شَرِبْتُ عسَلًا عند زَيْنبَ بنتِ جَحْشٍ، ولن أعُودَ له»؛ فنزَلتْ: {يَٰٓأَيُّهَا اْلنَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ اْللَّهُ لَكَۖ} [التحريم: 1] إلى {إِن تَتُوبَآ إِلَى اْللَّهِ} [التحريم: 4] لعائشةَ وحَفْصةَ، {وَإِذْ أَسَرَّ اْلنَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَٰجِهِۦ} [التحريم: 3] لقوله: «بل شَرِبْتُ عسَلًا»». أخرجه البخاري (٥٢٦٧).

* قوله تعالى: {عَسَىٰ رَبُّهُۥٓ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُۥٓ أَزْوَٰجًا خَيْرٗا مِّنكُنَّ} [التحريم: 5]:

عن عُمَرَ بن الخطَّابِ رضي الله عنه، قال: «اجتمَعَ نساءُ النبيِّ ﷺ في الغَيْرةِ عليه، فقلتُ لهنَّ: {عَسَىٰ رَبُّهُۥٓ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُۥٓ أَزْوَٰجًا خَيْرٗا مِّنكُنَّ} [التحريم: 5]؛ فنزَلتْ هذه الآيةُ». أخرجه البخاري (٤٩١٦).

وعنه رضي الله عنه، قال: «لمَّا اعتزَلَ نبيُّ اللهِ صلى الله عليه وسلم نساءَه، قال: دخَلْتُ المسجدَ، فإذا الناسُ ينكُتون بالحصى، ويقولون: طلَّقَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم نساءَه، وذلك قبل أن يُؤمَرْنَ بالحِجابِ، فقال عُمَرُ: فقلتُ: لَأعلَمَنَّ ذلك اليومَ، قال: فدخَلْتُ على عائشةَ، فقلتُ: يا بنتَ أبي بكرٍ، أقَدْ بلَغَ مِن شأنِكِ أن تُؤذِي رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم؟ فقالت: ما لي وما لك يا بنَ الخطَّابِ؟! عليك بعَيْبتِك، قال: فدخَلْتُ على حَفْصةَ بنتِ عُمَرَ، فقلتُ لها: يا حَفْصةُ، أقَدْ بلَغَ مِن شأنِكِ أن تُؤذِي رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم؟ واللهِ، لقد عَلِمْتِ أنَّ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم لا يُحِبُّكِ، ولولا أنا لطلَّقَكِ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فبكَتْ أشدَّ البكاءِ، فقلتُ لها: أين رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم؟ قالت: هو في خِزانتِه في المَشْرُبةِ، فدخَلْتُ، فإذا أنا برَباحٍ غلامِ رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم قاعدًا على أُسْكُفَّةِ المَشْرُبةِ، مُدَلٍّ رِجْلَيهِ على نَقِيرٍ مِن خشَبٍ، وهو جِذْعٌ يَرقَى عليه رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم وينحدِرُ، فنادَيْتُ: يا رَباحُ، استأذِنْ لي عندَك على رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فنظَرَ رَباحٌ إلى الغُرْفةِ، ثم نظَرَ إليَّ، فلَمْ يقُلْ شيئًا، ثم قلتُ: يا رَباحُ، استأذِنْ لي عندَك على رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فنظَرَ رَباحٌ إلى الغُرْفةِ، ثم نظَرَ إليَّ، فلَمْ يقُلْ شيئًا، ثم رفَعْتُ صوتي، فقلتُ: يا رَباحُ، استأذِنْ لي عندَك على رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم؛ فإنِّي أظُنُّ أنَّ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم ظَنَّ أنِّي جِئْتُ مِن أجلِ حَفْصةَ، واللهِ، لَئِنْ أمَرَني رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم بضَرْبِ عُنُقِها، لَأَضرِبَنَّ عُنُقَها، ورفَعْتُ صوتي، فأومأَ إليَّ أنِ ارْقَهْ، فدخَلْتُ على رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم وهو مضطجِعٌ على حصيرٍ، فجلَسْتُ، فأدنى عليه إزارَه، وليس عليه غيرُه، وإذا الحصيرُ قد أثَّرَ في جَنْبِه، فنظَرْتُ ببصَري في خِزانةِ رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فإذا أنا بقَبْضةٍ مِن شَعِيرٍ نحوِ الصَّاعِ، ومِثْلِها قَرَظًا، في ناحيةِ الغُرْفةِ، وإذا أَفِيقٌ معلَّقٌ، قال: فابتدَرتْ عَيْناي، قال: «ما يُبكِيك يا بنَ الخطَّابِ؟»، قلتُ: يا نبيَّ اللهِ، وما ليَ لا أبكي وهذا الحصيرُ قد أثَّرَ في جَنْبِك، وهذه خِزانتُك لا أرى فيها إلا ما أرى، وذاك قَيْصَرُ وكِسْرَى في الثِّمارِ والأنهارِ، وأنت رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم، وصَفْوتُه، وهذه خِزانتُك؟! فقال: «يا بنَ الخطَّابِ، ألَا تَرضَى أن تكونَ لنا الآخرةُ ولهم الدنيا؟»، قلتُ: بلى، قال: ودخَلْتُ عليه حينَ دخَلْتُ وأنا أرى في وجهِه الغضَبَ، فقلتُ: يا رسولَ اللهِ، ما يشُقُّ عليك مِن شأنِ النِّساءِ؟ فإن كنتَ طلَّقْتَهنَّ، فإنَّ اللهَ معك وملائكتَه وجِبْريلَ وميكائيلَ، وأنا وأبو بكرٍ والمؤمنون معك، وقلَّما تكلَّمْتُ - وأحمَدُ اللهَ - بكلامٍ إلا رجَوْتُ أن يكونَ اللهُ يُصدِّقُ قولي الذي أقولُ، ونزَلتْ هذه الآيةُ آيةُ التخييرِ: {عَسَىٰ رَبُّهُۥٓ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُۥٓ أَزْوَٰجًا خَيْرٗا مِّنكُنَّ} [التحريم: 5]، {وَإِن تَظَٰهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اْللَّهَ هُوَ مَوْلَىٰهُ وَجِبْرِيلُ وَصَٰلِحُ اْلْمُؤْمِنِينَۖ وَاْلْمَلَٰٓئِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ} [التحريم: 4]، وكانت عائشةُ بنتُ أبي بكرٍ وحَفْصةُ تَظاهرانِ على سائرِ نساءِ النبيِّ صلى الله عليه وسلم، فقلتُ: يا رسولَ اللهِ، أطلَّقْتَهنَّ؟ قال: «لا»، قلتُ: يا رسولَ اللهِ، إنِّي دخَلْتُ المسجدَ والمسلمون ينكُتون بالحَصى، يقولون: طلَّقَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم نساءَه، أفأنزِلُ فأُخبِرَهم أنَّك لم تُطلِّقْهنَّ؟ قال: «نعم، إن شِئْتَ»، فلَمْ أزَلْ أُحدِّثُه حتى تحسَّرَ الغضَبُ عن وجهِه، وحتى كشَرَ فضَحِكَ، وكان مِن أحسَنِ الناسِ ثَغْرًا، ثم نزَلَ نبيُّ اللهِ صلى الله عليه وسلم، ونزَلْتُ، فنزَلْتُ أتشبَّثُ بالجِذْعِ، ونزَلَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم كأنَّما يمشي على الأرضِ، ما يَمَسُّه بيدِه، فقلتُ: يا رسولَ اللهِ، إنَّما كنتَ في الغُرْفةِ تِسْعةً وعِشْرينَ؟ قال: «إنَّ الشهرَ يكونُ تِسْعًا وعِشْرينَ»، فقُمْتُ على بابِ المسجدِ، فنادَيْتُ بأعلى صوتي: لم يُطلِّقْ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم نساءَه، ونزَلتْ هذه الآيةُ: {وَإِذَا ‌جَآءَهُمْ ‌أَمْرٞ مِّنَ اْلْأَمْنِ أَوِ اْلْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِهِۦۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى اْلرَّسُولِ وَإِلَىٰٓ أُوْلِي اْلْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ اْلَّذِينَ يَسْتَنۢبِطُونَهُۥ مِنْهُمْۗ} [النساء: 83]، فكنتُ أنا استنبَطْتُ ذلك الأمرَ، وأنزَلَ اللهُ عز وجل آيةَ التخييرِ». أخرجه مسلم (١٤٧٩).

* سورة (التحريم):

سُمِّيت سورة (التحريم) بهذا الاسم؛ لِما ذُكِر فيها من تحريمِ النبي صلى الله عليه وسلم على نفسِه ما أحلَّ اللهُ له؛ قال تعالى: {يَٰٓأَيُّهَا اْلنَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ اْللَّهُ لَكَۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَٰجِكَۚ وَاْللَّهُ غَفُورٞ رَّحِيمٞ} [التحريم: 1].
* سورة (اْلنَّبِيِّ):
للسبب السابق نفسه.

* سورة {لِمَ تُحَرِّمُ}:
وتسميتها بهذا الاسمِ من قبيل تسمية السورة بأولِ كلمة فيها.

1. عتابٌ ومغفرة (١-٢).

2. إفشاء سرِّ الزوجية، وعواقبه (٣-٥).

3. الرعاية مسؤولية ومكافأة (٦-٩).

4. العِظات من سِيَر الأقدمين (١٠-١٢).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (8 /245).

يقول البِقاعيُّ: «مقصودها: الحثُّ على تقديرِ التدبير في الآداب مع الله ومع رسوله، لا سيما للنساء؛ اقتداءً بالنبي صلى الله عليه وسلم في حُسْنِ عِشْرته، وكريم صُحْبته، وبيان أن الأدبَ الشرعي تارة يكون باللِّين، وأخرى بالسوط وما داناه، ومرة بالسيف وما والاه.

واسماها (التحريم، والنبيُّ): موضِّحٌ لذلك». "مصاعد النظر للإشراف على مقاصد السور" للبقاعي (3 /99).