ترجمة سورة القلم

محمد جوناگڑھی - Urdu translation

ترجمة معاني سورة القلم باللغة الأردية من كتاب محمد جوناگڑھی - Urdu translation.

قلم


ن، قسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ کہ وه (فرشتے) لکھتے ہیں

تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں ہے

اور بے شک تیرے لیے بے انتہا اجر ہے

اور بیشک تو بہت بڑے (عمده) اخلاق پر ہے

پس اب تو بھی دیکھ لے گا اور یہ بھی دیکھ لیں گے

کہ تم میں سے کون فتنہ میں پڑا ہوا ہے

بیشک تیرا رب اپنی راه سے بہکنے والوں کو خوب جانتا ہے، اور وه راه یافتہ لوگوں کو بھی بخوبی جانتا ہے

پس تو جھٹلانے والوں کی نہ مان

وه تو چاہتے ہیں کہ تو ذرا ڈھیلا ہو تو یہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں

اور تو کسی ایسے شخص کا بھی کہا نہ ماننا جو زیاده قسمیں کھانے واﻻ

بے وقار، کمینہ، عیب گو، چغل خور

بھلائی سے روکنے واﻻ حد سے بڑھ جانے واﻻ گنہگار

گردن کش پھر ساتھ ہی بے نسب ہو

اس کی سرکشی صرف اس لیے ہے کہ وه مال واﻻ اور بیٹوں واﻻ ہے

جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہہ دیتا ہے کہ یہ تو اگلوں کے قصے ہیں

ہم بھی اس کی سونڈ (ناک) پر داغ دیں گے

بیشک ہم نے انہیں اسی طرح آزما لیا جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جبکہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتار لیں گے

اور انشاءاللہ نہ کہا

پس اس پر تیرے رب کی جانب سے ایک بلا چاروں طرف گھوم گئی اور یہ سو ہی رہے تھے

پس وه باغ ایسا ہو گیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی

اب صبح ہوتے ہی انہوں نے ایک دوسرے کو آوازیں دیں

کہ اگر تمہیں پھل اتارنے ہیں تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی سویرے چل پڑو

پھر یہ سب چپکے چپکے یہ باتیں کرتے ہوئے چلے

کہ آج کے دن کوئی مسکین تمہارے پاس نہ آنے پائے

اور لپکے ہوئے صبح صبح گئے۔ (سمجھ رہے تھے) کہ ہم قابو پاگئے

جب انہوں نے باغ دیکھا تو کہنے لگے یقیناً ہم راستہ بھول گئے

نہیں نہیں بلکہ ہماری قسمت پھوٹ گئی

ان سب میں جو بہتر تھا اس نے کہا کہ میں تم سے نہ کہتا تھا کہ تم اللہ کی پاکیزگی کیوں نہیں بیان کرتے؟

تو سب کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے بیشک ہم ہی ﻇالم تھے

پھر وه ایک دوسرے کی طرف رخ کر کے آپس میں ملامت کرنے لگے

کہنے لگے ہائے افسوس! یقیناً ہم سرکش تھے

کیا عجب ہے کہ ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدلہ دے دے ہم تو اب اپنے رب سے ہی آرزو رکھتے ہیں

یوں ہی آفت آتی ہے اور آخرت کی آفت بہت بڑی ہے۔ کاش انہیں سمجھ ہوتی

پرہیزگاروں کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنتیں ہیں

کیا ہم مسلمانوں کو مثل گناه گاروں کے کردیں گے

تمہیں کیا ہوگیا، کیسے فیصلے کر رہے ہو؟

کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم پڑھتے ہو؟

کہ اس میں تمہاری من مانی باتیں ہوں؟

یا تم نے ہم سے کچھ قسمیں لی ہیں؟ جو قیامت تک باقی رہیں کہ تمہارے لیے وه سب ہے جو تم اپنی طرف سے مقرر کر لو

ان سے پوچھو تو کہ ان میں سے کون اس بات کا ذمہدار (اور دعویدار) ہے؟

کیا ان کے کوئی شریک ہیں؟ تو چاہئے کہ اپنے اپنے شریکوں کو لے آئیں اگر یہ سچے ہیں

جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو (سجده) نہ کر سکیں گے

نگاہیں نیچی ہوں گی اور ان پر ذلت و خواری چھارہی ہوگی، حاﻻنکہ یہ سجدے کے لیے (اس وقت بھی) بلائے جاتے تھے جب کہ صحیح سالم تھے

پس مجھے اور اس کلام کو جھٹلانے والے کو چھوڑ دے ہم انہیں اس طرح آہستہ آہستہ کھینچیں گے کہ انہیں معلوم بھی نہ ہوگا

اور میں انہیں ڈھیل دوں گا، بیشک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے

کیا تو ان سے کوئی اجرت چاہتا ہے جس کے تاوان سے یہ دبے جاتے ہیں

یا کیا ان کے پاس علم غیب ہے جسے وه لکھتے ہوں

پس تو اپنے رب کے حکم کا صبر سے (انتظار کر) اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جا جب کہ اس نے غم کی حالت میں دعا کی

اگر اسے اس کے رب کی نعمت نہ پالیتی تو یقیناً وه برے حالوں میں چٹیل میدان میں ڈال دیا جاتا

اسے اس کے رب نے پھر نوازا اور اسے نیک کاروں میں کر دیا

اور قریب ہے کہ کافر اپنی تیز نگاہوں سے آپ کو پھسلا دیں، جب کبھی قرآن سنتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ تو ضرور دیوانہ ہے

در حقیقت یہ (قرآن) تو تمام جہان والوں کے لیے سراسر نصیحت ہی ہے
سورة القلم
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورة (القَلَم) من السُّوَر المكية، وقد جاءت ببيانِ إعجاز هذا الكتاب للكفار، وتأكيدِ صدقِ نبوَّة مُحمَّد صلى الله عليه وسلم، وما جاء به من عندِ الله؛ فلن يستطيع الكفارُ أن يأتوا بمثل هذه الحروف أبدًا، وفي ذلك تسليةٌ للنبي صلى الله عليه وسلم، وتثبيت له، وخُتمت بتخويفِ الكفار من بطشِ الله، وتوصيةِ النبي صلى الله عليه وسلم بالصبر.

ترتيبها المصحفي
68
نوعها
مكية
ألفاظها
301
ترتيب نزولها
2
العد المدني الأول
52
العد المدني الأخير
52
العد البصري
52
العد الكوفي
52
العد الشامي
52

* سورة (القلم):

سُمِّيت سورة (القلم) بهذا الاسم؛ لافتتاحها بقَسَمِ الله بـ(القلم).

* سورة {نٓ}:

وسُمِّيت بهذا الاسم؛ لافتتاحها بهذا الحرفِ {نٓ}.

1. بيان رِفْعة قَدْرِ النبي عليه السلام (١-٧).

2. تحقير شأن الكافرين، وذمُّهم (٨-١٦).

3. قصة أصحاب الجنَّة (١٧-٣٣).

4. جزاء المؤمنين، وأسئلة إقناعية للكافرين (٣٤-٤٣).

5. تخويف الكفار من بطشِ الله، وتوصية النبي صلى الله عليه وسلم بالصبر (٤٤ -٥٢).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (8 /292).

 تَحدِّي الكفار والمعانِدين بهذا الكتاب، والدلالةُ على عجزِهم عن الإتيان بمثل سُوَرِه، وإبطالُ مطاعنِ المشركين في النبي صلى الله عليه وسلم، وإثباتُ صدقِه، ومن ثم تسليةُ الله له وتثبيته.

ينظر: "التحرير والتنوير" لابن عاشور (29 /58).