ترجمة سورة الزلزلة

الترجمة الأردية

ترجمة معاني سورة الزلزلة باللغة الأردية من كتاب الترجمة الأردية.
من تأليف: محمد إبراهيم جوناكري .

جب زمین پوری طرح جھنجھوڑ دی جائے گی.*
____________________
* اس کے مدنی اور مکی ہونے میں اختلاف ہے، اس کی فضلیت میں متعدد روایات منقول ہیں لیکن ان میں سے کوئی روایت صحیح نہیں ہے۔
اور اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی.*
____________________
* اس کا مطلب ہے سخت بھونچال سے ساری زمین لرز اٹھے گی اور ہر چیز ٹوٹ پھوٹ جائے گی، یہ اس وقت ہوگا، جب پہلا نفخہ پھونکا جائے گا۔
انسان کہنے لگے گا کہ اسے کیا ہوگیا؟*
____________________
* یعنی زمین میں جتنے انسان دفن ہیں، وہ زمین کا بوجھ ہیں، جنہیں زمین قیامت والے دن باہر نکال پھینکے گی۔ یعنی اللہ کے حکم سے سب زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے۔ یہ دوسرے نفخے میں ہوگا، اسی طرح زمین کے خزانے بھی باہر نکل آئیں گے۔
اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کردے گی.*
____________________
* یعنی دہشت زدہ ہوکر کہے گا کہ اسے کیا ہو گیا ہے، یہ کیوں اس طرح ہل رہی ہے اور اپنے خزانے اگل رہی ہے۔
اس لئے کہ تیرے رب نے اسے حکم دیا ہوگا.*
____________________
* یہ جواب شرط ہے۔ حدیث میں ہے، نبی (صلى الله عليه وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی اورپوچھا، جانتے ہو، زمین کی خبریں کیا ہیں؟ صحابہ (رضي الله عنهم) نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا، اس کی خبریں یہ ہیں کہ جس بندے یا بندی نے زمین کی پشت پر جو کچھ کیا ہوگا، اس کی گواہی دے گی۔ کہے گی فلاں فلاں شخص نے فلاں فلاں عمل، فلاں فلاں دن میں کیا تھا۔ ( ترمذي، أبواب صفة القيامة وتفسير سورة إذا زلزلت- مسند أحمد 2/ 374 ) ۔
(9) یعنی زمین کو یہ قوت گویائی اللہ عطا فرمائے گا، اس لئے اس میں تعجب والی بات نہیں ہے، جس طرح انسانی اعضا میں اللہ تعالیٰ یہ قوت پیدا فرما دے گا، زمین کو بھی اللہ تعالیٰ متکلم بنا دے گا اور وہ اللہ کے حکم سے بولے گی۔
اس روز لوگ مختلف جماعتیں ہو کر (واپس) لوٹیں* گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں.**
____________________
* يَصْدُرُ، يَرْجِعُ ( لوٹیں گے ) یہ ورود کی ضد ہے۔ یعنی قبروں سے نکل کر موقف حساب کی طرف، یا حساب کے بعد جنت اور دوزخ کی طرف لوٹیں گے۔ أَشْتَاتًا، متفرق، یعنی ٹولیاں ٹولیاں۔ بعض بےخوف ہوں گے، بعض خوف زدہ، بعض کے رنگ سفید ہوں گے جیسے جنتوں کے ہوں گے اور بعض کے رنگ سیاہ، جو ان کے جہنمی ہونے کی علامت ہوگی۔ بعض کا رخ دائیں جانب ہوگا بعض کا بائیں جانب۔ یا یہ مختلف گروہ ادیان ومذاہب اور اعمال وافعال کی بنیاد پر ہوں گے۔
**- یہ متعلق ہے يَصْدُرُ کے یا اس کا تعلق أَوْحَى لَهَا سے ہے۔ یعنی زمین اپنی خبریں اس لئے بیان کرے گی تاکہ انسانوں کو ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں۔
پس جس نے ذره برابر نیکی کی ہوگی وه اسے دیکھ لے گا.*
____________________
* پس وہ اس سے خوش ہوگا۔
اور جس نے ذره برابر برائی کی ہوگی وه اسے دیکھ لے گا.*
____________________
* وہ اس پرسخت پشیمان اور مضطرب ہوگا۔ ذَرَّةٍ بعض کے نزدیک چیونٹی سے بھی چھوٹی چیز ہے۔ بعض اہل لغت کہتے ہیں، انسان زمین پر ہاتھ مارتا ہے، اس سے اس کے ہاتھ پرجو مٹی لگ جاتی ہے، وہ ذرہ ہے۔ بعض کےنزدیک سوراخ سے آنے والی سورج کی شعاعوں میں گرد وغبار کے جو ذرات نظر آتے ہیں، وہ ذرہ ہے۔ لیکن امام شوکانی نے پہلے معنی کو اولیٰ کہا ہے۔ امام مقاتل کہتے ہیں کہ یہ سورت ان دو آمیوں کے بیان میں نازل ہوئی ہے۔ جن میں سے ایک شخص، سائل کو تھوڑا سا صدقہ دینے میں تامل کرتا اور دوسرا شخص چھوٹا گناہ کرنے میں کوئی خوف محسوس نہ کرتا تھا۔ (فتح القدیر) ۔
سورة الزلزلة
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورة (الزَّلْزلة) من السُّوَر المدنية، نزلت بعد سورة (النساء)، ولها فضلٌ عظيم؛ فهي تَعدِل رُبُعَ القرآن؛ كما صح في الحديث، وقد تحدثت عن أهوالِ يوم القيامة، وحالِ الناس يوم البعث، وما يعتريهم من الفزعِ والخوف، وأُثِر عن النبي صلى الله عليه وسلم قراءتُه لها في صلاة الفجر.

ترتيبها المصحفي
99
نوعها
مدنية
ألفاظها
35
ترتيب نزولها
93
العد المدني الأول
8
العد المدني الأخير
9
العد البصري
9
العد الكوفي
8
العد الشامي
9

* سورة (الزَّلْزلة):

سُمِّيت سورة (الزَّلْزلة) بهذا الاسم؛ لافتتاحها بقوله تعالى: {إِذَا زُلْزِلَتِ اْلْأَرْضُ زِلْزَالَهَا} [الزلزلة: 1].

* سورة (الزَّلْزلة) تَعدِل رُبُعَ القرآن:

عن أنسِ بن مالكٍ رضي الله عنه: «أنَّ رسولَ اللهِ ﷺ قال لرجُلٍ مِن أصحابِه: «هل تزوَّجْتَ يا فلانُ؟»، قال: لا واللهِ يا رسولَ اللهِ، ولا عندي ما أتزوَّجُ به، قال: «أليس معك {قُلْ هُوَ اْللَّهُ أَحَدٌ}؟»، قال: بلى، قال: «ثُلُثُ القرآنِ»، قال: «أليس معك {إِذَا جَآءَ نَصْرُ اْللَّهِ وَاْلْفَتْحُ}؟»، قال: بلى، قال: «رُبُعُ القرآنِ»، قال: «أليس معك {قُلْ يَٰٓأَيُّهَا اْلْكَٰفِرُونَ}؟»، قال: بلى، قال: «رُبُعُ القرآنِ»، قال: «أليس معك {إِذَا زُلْزِلَتِ اْلْأَرْضُ زِلْزَالَهَا}؟»، قال: بلى، قال: «رُبُعُ القرآنِ»، قال: تزوَّجْ، تزوَّجْ»». أخرجه الترمذي (٢٨٩٥).

* أوصى رسولُ الله صلى الله عليه وسلم رجُلًا بقراءة سورة (الزَّلْزلة):

عن عبدِ اللهِ بن عمرٍو رضي الله عنه، قال: «أتى رجُلٌ رسولَ اللهِ ﷺ، فقال: أقرِئْني يا رسولَ اللهِ، فقال: «اقرَأْ ثلاثًا مِن ذواتِ {الٓر}»، فقال: كَبِرتْ سِنِّي، واشتَدَّ قلبي، وغلُظَ لساني، قال: «فاقرَأْ ثلاثًا مِن ذواتِ {حمٓ}»، فقال مِثْلَ مقالتِه، فقال: اقرَأْ ثلاثًا مِن (المُسبِّحاتِ)»، فقال مِثْلَ مقالتِه، فقال الرجُلُ: يا رسولَ اللهِ، أقرِئْني سورةً جامعةً، فأقرَأَه النبيُّ ﷺ: {إِذَا زُلْزِلَتِ اْلْأَرْضُ} حتى فرَغَ منها، فقال الرجُلُ: والذي بعَثَك بالحقِّ، لا أَزيدُ عليها أبدًا، ثم أدبَرَ الرجُلُ، فقال النبيُّ ﷺ: «أفلَحَ الرُّوَيجِلُ» مرَّتَينِ». أخرجه أبو داود (١٣٩٩).

* ثبَت عن النبي صلى الله عليه وسلم قراءتُه لسورة (الزَّلْزلة) في صلاة الفجر:

عن مُعاذِ بن عبدِ اللهِ الجُهَنيِّ: «أنَّ رجُلًا مِن جُهَينةَ أخبَرَه أنَّه سَمِعَ النبيَّ ﷺ يَقرأُ في الصُّبْحِ: {إِذَا زُلْزِلَتِ اْلْأَرْضُ زِلْزَالَهَا} في الرَّكعتَينِ كلتَيْهما، فلا أدري أنَسِيَ رسولُ اللهِ ﷺ أم قرَأَ ذلك عمدًا؟». أخرجه أبو داود (٨١٦).

* كان صلى الله عليه وسلم يصلي ركعتَينِ بعد الوترِ يقرأ فيهما (الزلزلة) و(الكافرون):

عن سعدِ بن هشامٍ: «أنَّه سأَلَ عائشةَ عن صلاةِ النبيِّ ﷺ باللَّيلِ، فقالت: كان رسولُ اللهِ ﷺ إذا صلَّى العِشاءَ تجوَّزَ بركعتَينِ، ثم ينامُ وعند رأسِه طَهُورُه وسِواكُه، فيقُومُ فيَتسوَّكُ ويَتوضَّأُ ويُصلِّي، ويَتجوَّزُ بركعتَينِ، ثم يقُومُ فيُصلِّي ثمانَ ركَعاتٍ يُسوِّي بَيْنهنَّ في القراءةِ، ثم يُوتِرُ بالتاسعةِ، ويُصلِّي ركعتَينِ وهو جالسٌ، فلمَّا أسَنَّ رسولُ اللهِ ﷺ وأخَذَ اللَّحْمَ، جعَلَ الثَّمانَ سِتًّا، ويُوتِرُ بالسابعةِ، ويُصلِّي ركعتَينِ وهو جالسٌ، يَقرأُ فيهما: {قُلْ يَٰٓأَيُّهَا اْلْكَٰفِرُونَ}، و{إِذَا زُلْزِلَتِ}». أخرجه ابن حبان (٢٦٣٥).

1. أهوال القيامة وشدائدها (١-٥).

2. مآل الخلائقِ يوم الحساب (٦-٨).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (9 /287).

إثباتُ البعثِ ووقوعِ القيامةِ وما يعتري الناسَ من الأهوال؛ وبذلك تنكشفُ الأمور، وينقسمُ الناس إلى أشقياءَ وسعداءَ.

ينظر: "مصاعد النظر للإشراف على مقاصد السور" للبقاعي (3 /231).