ترجمة سورة الإنسان

محمد جوناگڑھی - Urdu translation

ترجمة معاني سورة الإنسان باللغة الأردية من كتاب محمد جوناگڑھی - Urdu translation.

انسان (دہر)


یقیناً گزرا ہے انسان پر ایک وقت زمانے میں جب کہ یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا

بیشک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے امتحان کے لیے پیدا کیا اور اس کو سنتا دیکھتا بنایا

ہم نے اسے راه دکھائی اب خواه وه شکر گزار بنے خواه ناشکرا

یقیناً ہم نے کافروں کے لیے زنجیریں اور طوق اور شعلوں والی آگ تیار کر رکھی ہے

بیشک نیک لوگ وه جام پئیں گے جس کی آمیزش کافور کی ہے

جو ایک چشمہ ہے۔ جس سے اللہ کے بندے پئیں گے اس کی نہریں نکال لے جائیں گے (جدھر چاہیں)

جو نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے

اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین، یتیم اور قیدیوں کو

ہم تو تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے کھلاتے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکر گزاری

بیشک ہم اپنے پروردگار سے اس دن کا خوف کرتے ہیں جو اداسی اور سختی واﻻ ہوگا

پس انہیں اللہ تعالیٰ نے اس دن کی برائی سے بچا لیا اور انہیں تازگی اور خوشی پہنچائی

اور انہیں ان کے صبر کے بدلے جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے

یہ وہاں تختوں پر تکیے لگائے ہوئے بیٹھیں گے۔ نہ وہاں آفتاب کی گرمی دیکھیں گے نہ جاڑے کی سختی

ان جنتوں کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے اور ان کے (میوے اور) گچھے نیچے لٹکائے ہوئے ہوں گے

اور ان پر چاندی کے برتنوں اور ان جاموں کا دور کرایا جائے گا جو شیشے کے ہوں گے

شیشے بھی چاندی کے جن کو (ساقی نے) اندازے سے ناپ رکھا ہوگا

اور انہیں وہاں وه جام پلائے جائیں گے جن کی آمیزش زنجبیل کی ہوگی

جنت کی ایک نہر سے جس کا نام سلسبیل ہے

اور ان کے ارد گرد گھومتے پھرتے ہوں گے وه کم سن بچے جو ہمیشہ رہنے والے ہیں جب تو انہیں دیکھے تو سمجھے کہ وه بکھرے ہوئے سچے موتی ہیں

تو وہاں جہاں کہیں بھی نظر ڈالے گا سراسر نعمتیں اور عظیم الشان سلطنت ہی دیکھے گا

ان کے جسموں پر سبز باریک اور موٹے ریشمی کپڑے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنگن کا زیور پہنایا جائے گا۔ اور انہیں ان کا رب پاک صاف شراب پلائے گا

(کہا جائے گا) کہ یہ ہے تمہارے اعمال کا بدلہ اور تمہاری کوشش کی قدر کی گئی

بیشک ہم نے تجھ پر بتدریج قرآن نازل کیا ہے

پس تو اپنے رب کے حکم پر قائم ره اور ان میں سے کسی گنہگار یا ناشکرے کا کہا نہ مان

اور اپنے رب کے نام کا صبح وشام ذکر کیا کر

اور رات کے وقت اس کے سامنے سجدے کر اور بہت رات تک اس کی تسبیح کیا کر

بیشک یہ لوگ جلدی ملنے والی (دنیا) کو چاہتے ہیں اور اپنے پیچھے ایک بڑے بھاری دن کو چھوڑے دیتے ہیں

ہم نے انہیں پیدا کیا اور ہم نے ہی ان کے جوڑ اور بندھن مضبوط کیے اور ہم جب چاہیں ان کے عوض ان جیسے اوروں کو بدل ﻻئیں

یقیناً یہ تو ایک نصیحت ہے پس جو چاہے اپنے رب کی راه لے لے

اور تم نہ چاہو گے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی چاہے بیشک اللہ تعالیٰ علم واﻻ باحکمت ہے

جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کرلے، اور ﻇالموں کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے
سورة الإنسان
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورة (الإنسان) من السُّوَر المكية، نزلت بعد سورة (الرحمن)، وقد ذكَّرتِ الإنسانَ بأصل خِلْقته، وقدرة الله عليه؛ ليتواضعَ لأمر الله ويستجيب له؛ فاللهُ هو الذي جعل هذا الإنسانَ سميعًا بصيرًا؛ فالواجب المتحتم عليه أن تُجعَلَ هذه الجوارحُ كما أراد لها خالقها وبارئها؛ ليكونَ بذلك حسَنَ الجزاء يوم القيامة، ومَن كفر فمشيئة الله نافذةٌ في عذابه إياه، وقد كان صلى الله عليه وسلم يَقرؤها في فجرِ الجمعة.

ترتيبها المصحفي
76
نوعها
مكية
ألفاظها
243
ترتيب نزولها
98
العد المدني الأول
31
العد المدني الأخير
31
العد البصري
31
العد الكوفي
31
العد الشامي
31

* سورة (الإنسان):

سُمِّيت سورة (الإنسان) بهذا الاسم؛ لافتتاحها بذكرِ الإنسان وخَلْقِه من عدمٍ.

* سورة {هَلْ أَتَىٰ} أو {هَلْ أَتَىٰ عَلَى اْلْإِنسَٰنِ}:

سُمِّيت بذلك؛ لافتتاحها به.

كان صلى الله عليه وسلم يقرأ سورة (الإنسان) في فجرِ الجمعة:

عن عبدِ اللهِ بن عباسٍ رضي الله عنهما: «أنَّ رسولَ اللهِ ﷺ قرَأَ في صلاةِ الغداةِ يومَ الجمعةِ: {الٓمٓ ١ تَنزِيلُ} السَّجْدةَ، و{هَلْ أَتَىٰ عَلَى اْلْإِنسَٰنِ}». أخرجه مسلم (٨٧٩).

1. نعمة الخَلْق والهداية (١-٣).

2. مصير الكفار (٤).

3. جزاء الأبرار (٥-٢٢).

4. توجيهٌ للنبي عليه السلام (٢٣-٢٦).

5. وعيدٌ للمشركين (٢٧-٢٨).

6. مشيئة الله تعالى نافذة (٢٩-٣١).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (8 /511).

مقصود السورة الأعظمُ تذكيرُ الناس بأصل خِلْقَتِهم، وأنَّ الله أوجَدهم من عدم، وبَعْثُهم بعد أن أوجَدهم أسهَلُ من إيجادهم؛ ففي ذلك أكبَرُ دلالةٍ على قدرة الله على إحياء الناس وحسابهم.
وفي ذلك يقول ابن عاشور رحمه الله: «محورها التذكيرُ بأنَّ كل إنسان كُوِّنَ بعد أن لم يكُنْ، فكيف يَقضي باستحالة إعادة تكوينه بعد عدمه؟

وإثبات أن الإنسان محقوقٌ بإفراد الله بالعبادة؛ شكرًا لخالقه، ومُحذَّرٌ من الإشراك به.

وإثبات الجزاء على الحالينِ، مع شيءٍ من وصفِ ذلك الجزاء بحالتيه، والإطنابِ في وصفِ جزاء الشاكرين». "التحرير والتنوير" لابن عاشور (29 /371).