ترجمة سورة الحشر

محمد جوناگڑھی - Urdu translation

ترجمة معاني سورة الحشر باللغة الأردية من كتاب محمد جوناگڑھی - Urdu translation.

حشر


آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہے، اور وه غالب باحکمت ہے

وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافروں کو ان کے گھروں سے پہلے حشر کے وقت نکالا، تمہارا گمان (بھی) نہ تھا کہ وه نکلیں گے اور وه خود (بھی) سمجھ رہے تھے کہ ان کے (سنگین) قلعے انہیں اللہ (کے عذاب) سے بچا لیں گے پس ان پر اللہ (کا عذاب) ایسی جگہ سے آپڑا کہ انہیں گمان بھی نہ تھا اور ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا وه اپنے گھروں کو اپنے ہی ہاتھوں اجاڑ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہاتھوں (برباد کروا رہے تھے) پس اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو

اور اگر اللہ تعالیٰ نے ان پر جلا وطنی کو مقدر نہ کر دیا ہوتا تو یقیناً انہیں دنیا ہی میں عذاب دیتا، اور آخرت میں (تو) ان کے لیے آگ کا عذاب ہے ہی

یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو بھی اللہ کی مخالفت کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی سخت عذاب کرنے واﻻ ہے

تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پر باقی رہنے دیا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے فرمان سے تھا اور اس لیے بھی کہ فاسقوں کو اللہ تعالیٰ رسوا کرے

اور ان کا جو مال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ہاتھ لگایا ہے جس پر نہ تو تم نے اپنے گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ اونٹ بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جس پر چاہے غالب کر دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے

بستیوں والوں کا جو (مال) اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وه اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے تاکہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ ره جائے اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب واﻻ ہے

(فیء کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وه اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں

اور (ان کے لیے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی ہے اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وه اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب (اور بامراد) ہے

اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان ﻻچکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت ومہربانی کرنے واﻻ ہے

کیا تو نے منافقوں کو نہ دیکھا؟ کہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تم جلا وطن کیے گئے تو ضرور بالضرور ہم بھی تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہوں گے اور تمہارے بارے میں ہم کبھی بھی کسی کی بات نہ مانیں گے اور اگر تم سے جنگ کی جائے گی تو بخدا ہم تمہاری مدد کریں گے، لیکن اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ قطعاً جھوٹے ہیں

اگر وه جلاوطن کیے گئے تو یہ ان کے ساتھ نہ جائیں گے اور اگر ان سے جنگ کی گئی تو یہ ان کی مدد (بھی) نہ کریں گے اور اگر (بالفرض) مدد پر آبھی گئے تو پیٹھ پھیر کر (بھاگ کھڑے) ہوں گے پھر مدد نہ کیے جائیں گے

(مسلمانو! یقین مانو) کہ تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں بہ نسبت اللہ کی ہیبت کے بہت زیاده ہے، یہ اس لیے کہ یہ بے سمجھ لوگ ہیں

یہ سب مل کر بھی تم سے لڑ نہیں سکتے ہاں یہ اور بات ہے کہ قلعہ بند مقامات میں ہوں یا دیواروں کی آڑ میں ہوں، ان کی لڑائی تو ان میں آپس میں ہی بہت سخت ہے گو آپ انہیں متحد سمجھ رہے ہیں لیکن ان کے دل دراصل ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ اس لیے کہ یہ بےعقل لوگ ہیں

ان لوگوں کی طرح جو ان سے کچھ ہی پہلے گزرے ہیں جنہوں نے اپنے کام کا وبال چکھ لیا اور جن کے لیے المناک عذاب (تیار) ہے

شیطان کی طرح کہ اس نے انسان سے کہا کفر کر، جب وه کفر کر چکا تو کہنے لگا میں تو تجھ سے بری ہوں، میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں

پس دونوں کا انجام یہ ہوا کہ آتش (دوزخ) میں ہمیشہ کے لیے گئے اور ﻇالموں کی یہی سزا ہے

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیره) بھیجا ہے۔ اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے

اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جنہوں نے اللہ (کے احکام) کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں اپنی جانوں سے غافل کر دیا، اور ایسے ہی لوگ نافرمان (فاسق) ہوتے ہیں

اہل نار اور اہل جنت (باہم) برابر نہیں۔ جو اہل جنت ہیں وہی کامیاب ہیں (اور جو اہل نار ہیں وه ناکام ہیں)

اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو تو دیکھتا کہ خوف الٰہی سے وه پست ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہم ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں تاکہ وه غور وفکر کریں

وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، چھپے کھلے کا جاننے واﻻ مہربان اور رحم کرنے واﻻ

وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاه، نہایت پاک، سب عیبوں سے صاف، امن دینے واﻻ، نگہبان، غالب زورآور، اور بڑائی واﻻ، پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جنہیں یہ اس کا شریک بناتے ہیں

وہی اللہ ہے پیدا کرنے واﻻ وجود بخشنے واﻻ، صورت بنانے واﻻ، اسی کے لیے (نہایت) اچھے نام ہیں، ہر چیز خواه وه آسمانوں میں ہو خواه زمین میں ہو اس کی پاکی بیان کرتی ہے، اور وہی غالب حکمت واﻻ ہے
سورة الحشر
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورة (الحشر) من السُّوَر المدنية، من (المسبِّحات)، وهي التي تبدأ بـ {سَبَّحَ}، نزلت بعد سورة (البيِّنة)، وقد نزلت في إجلاء يهودِ (بني النَّضير)، وأشارت إلى تاريخِ اليهود المليء بالخيانات، وعدم الالتزام بالمواثيق والعهود، وتعرَّضت لحُكْمِ (الفَيْء)، وقد افتُتحت بمقصدٍ عظيم؛ وهو تنزيهُ الله عزَّ وجلَّ عن كل نقص، وإثبات كلِّ كمال له سبحانه؛ فهو المستحِقُّ لصفات الألوهيَّة والربوبيَّة.

ترتيبها المصحفي
59
نوعها
مدنية
ألفاظها
447
ترتيب نزولها
101
العد المدني الأول
24
العد المدني الأخير
24
العد البصري
24
العد الكوفي
24
العد الشامي
24

* نزَلتْ سورة (الحشر) في يهودِ (بني النَّضير):

عن سعيدِ بن جُبَيرٍ رحمه الله، قال: «قلتُ لابنِ عباسٍ: سورةُ التَّوْبةِ؟ قال: التَّوْبةُ هي الفاضحةُ، ما زالت تَنزِلُ: {وَمِنْهُمْ} {وَمِنْهُمْ} حتى ظَنُّوا أنَّها لن تُبقِيَ أحدًا منهم إلا ذُكِرَ فيها، قال: قلتُ: سورةُ الأنفالِ؟ قال: نزَلتْ في بَدْرٍ، قال: قلتُ: سورةُ الحَشْرِ؟ قال: نزَلتْ في بني النَّضِيرِ». أخرجه البخاري (٤٨٨٢).

* قوله تعالى: {سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي اْلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِي اْلْأَرْضِۖ وَهُوَ اْلْعَزِيزُ اْلْحَكِيمُ ١ هُوَ اْلَّذِيٓ أَخْرَجَ اْلَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْ أَهْلِ اْلْكِتَٰبِ مِن دِيَٰرِهِمْ لِأَوَّلِ اْلْحَشْرِۚ مَا ظَنَنتُمْ أَن يَخْرُجُواْۖ وَظَنُّوٓاْ أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اْللَّهِ فَأَتَىٰهُمُ اْللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُواْۖ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ اْلرُّعْبَۚ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي اْلْمُؤْمِنِينَ فَاْعْتَبِرُواْ يَٰٓأُوْلِي اْلْأَبْصَٰرِ} [الحشر: 1-2]:

عن عائشةَ رضي الله عنها، قالت: «كانت غَزْوةُ بني النَّضِيرِ - وهم طائفةٌ مِن اليهودِ - على رأسِ ستَّةِ أشهُرٍ مِن وَقْعةِ بَدْرٍ، وكان مَنزِلُهم ونَخْلُهم بناحيةِ المدينةِ، فحاصَرَهم رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم حتى نزَلوا على الجَلاءِ، وعلى أنَّ لهم ما أقَلَّتِ الإبلُ مِن الأمتعةِ والأموالِ، إلا الحَلَقةَ؛ يَعني: السِّلاحَ؛ فأنزَلَ اللهُ فيهم: {سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي اْلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِي اْلْأَرْضِۖ} [الحشر: 1] إلى قولِه: {لِأَوَّلِ اْلْحَشْرِۚ مَا ظَنَنتُمْ أَن يَخْرُجُواْۖ} [الحشر: 2]، فقاتَلَهم النبيُّ صلى الله عليه وسلم حتى صالَحَهم على الجَلاءِ، فأَجْلاهم إلى الشَّامِ، وكانوا مِن سِبْطٍ لم يُصِبْهم جَلاءٌ فيما خلا، وكان اللهُ قد كتَبَ عليهم ذلك، ولولا ذلك لعذَّبَهم في الدُّنيا بالقتلِ والسَّبْيِ، وأمَّا قولُه: {لِأَوَّلِ اْلْحَشْرِۚ} [الحشر: 2]، فكان جَلاؤُهم ذلك أوَّلَ حَشْرٍ في الدُّنيا إلى الشَّامِ». أخرجه الحاكم (3850).

* قوله تعالى: {مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَآئِمَةً عَلَىٰٓ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اْللَّهِ وَلِيُخْزِيَ اْلْفَٰسِقِينَ} [الحشر: 5]:

عن عبدِ اللهِ بن عُمَرَ رضي الله عنهما، قال: «حرَّقَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم نَخْلَ بني النَّضِيرِ وقطَعَ، وهي البُوَيرةُ؛ فنزَلتْ: {مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَآئِمَةً عَلَىٰٓ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اْللَّهِ} [الحشر: 5]». أخرجه البخاري (٤٠٣١).

* قوله تعالى: {وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٞۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِۦ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ اْلْمُفْلِحُونَ} [الحشر: 9]:

عن أبي هُرَيرةَ رضي الله عنه: «أنَّ رجُلًا أتى النبيَّ صلى الله عليه وسلم، فبعَثَ إلى نسائِه، فقُلْنَ: ما معنا إلا الماءُ، فقال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «مَن يضُمُّ أو يُضِيفُ هذا؟»، فقال رجُلٌ مِن الأنصارِ: أنا، فانطلَقَ به إلى امرأتِه، فقال: أكرِمي ضيفَ رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فقالت: ما عندنا إلا قُوتُ صِبْياني، فقال: هَيِّئي طعامَكِ، وأصبِحي سِراجَكِ، ونَوِّمي صِبْيانَكِ إذا أرادوا عَشاءً، فهيَّأتْ طعامَها، وأصبَحتْ سِراجَها، ونوَّمتْ صِبْيانَها، ثم قامت كأنَّها تُصلِحُ سِراجَها فأطفأته، فجعَلَا يُرِيانِه أنَّهما يأكُلانِ، فبَاتَا طاوِيَينِ، فلمَّا أصبَحَ غَدَا إلى رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فقال: «ضَحِكَ اللهُ اللَّيلةَ - أو عَجِبَ - مِن فَعالِكما»؛ فأنزَلَ اللهُ: {وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٞۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِۦ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ اْلْمُفْلِحُونَ} [الحشر: 9]». أخرجه البخاري (٣٧٩٨).

* سورةُ (الحَشْر):

سُمِّيت سورةُ (الحَشْر) بذلك؛ لوقوع لفظِ (الحشر) فيها؛ قال تعالى: {هُوَ اْلَّذِيٓ أَخْرَجَ اْلَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْ أَهْلِ اْلْكِتَٰبِ مِن دِيَٰرِهِمْ لِأَوَّلِ اْلْحَشْرِۚ} [الحشر: 2].

والمراد بـ(الحَشْر) هنا: إخراجُ (بني النَّضِير)، لا يومُ القيامة.

* سورة (بني النَّضِير):

وسُمِّيت بذلك؛ لاشتمالها على قِصَّة إجلاء يهودِ (بني النَّضير).

1. إجلاء بني النَّضير (١-٥).

2. حُكْمُ الفَيء (٦-١٧).

3. التقوى، قوة القرآن، أسماء الله الحسنى (١٨-٢٤).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (8 /60).

مقصودُ سورة (الحشر) تنزيهُ الله عز وجل عن كلِّ النقائص، وإثباتُ الكمال المطلق له؛ فهو الإله المستحِقُّ للعبادة؛ لكمال اتصافه بالقدرة الشاملة والحِكْمة البالغة، وهذه دعوةٌ لتوحيد الرُّبوبية والألوهية له سبحانه.

ويذكُرُ ابنُ عاشور أنَّ السورة جاءت لبيان: «حُكْم أموال بني النَّضير بعد الانتصار عليهم»، ثم يقول في بيان مقاصدها: «وقد اشتملت على أن ما في السموات وما في الأرض دالٌّ على تنزيه الله، وكونِ ما في السموات والأرض مِلْكَه، وأنه الغالب المدبِّر.

وعلى ذِكْرِ نعمة الله على ما يسَّر من إجلاء بني النَّضير مع ما كانوا عليه من المَنَعةِ والحصون والعُدَّة؛ وتلك آيةٌ من آيات تأييد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وغَلَبَتِه على أعدائه.

وذِكْرِ ما أجراه المسلمون من إتلافِ أموال بني النَّضير، وأحكام ذلك في أموالهم، وتعيين مستحِقِّيه من المسلمين». "التحرير والتنوير" لابن عاشور (28 /63).

وينظر: "مصاعد النظر للإشراف على مقاصد السور" للبقاعي (3 /72).