ترجمة سورة ق

محمد جوناگڑھی - Urdu translation

ترجمة معاني سورة ق باللغة الأردية من كتاب محمد جوناگڑھی - Urdu translation.

ق


ق! بہت بڑی شان والے اس قرآن کی قسم ہے

بلکہ انہیں تعجب معلوم ہوا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک آگاه کرنے واﻻ آیا تو کافروں نے کہا کہ یہ ایک عجیب چیز ہے

کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے۔ پھر یہ واپسی دور (از عقل) ہے

زمین جو کچھ ان سے گھٹاتی ہے وه ہمیں معلوم ہے اور ہمارے پاس سب یاد رکھنے والی کتاب ہے

بلکہ انہوں نے سچی بات کو جھوٹ کہا ہے جبکہ وه ان کے پاس پہنچ چکی پس وه ایک الجھاؤ میں پڑ گئے ہیں

کیا انہوں نے آسمان کو اپنے اوپر نہیں دیکھا؟ کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا ہے اور زینت دی ہے اس میں کوئی شگاف نہیں

اور زمین کو ہم نے بچھا دیا اور اس میں ہم نے پہاڑ ڈال دیئے ہیں اور اس میں ہم نے قسم قسم کی خوشنما چیزیں اگا دی ہیں

تاکہ ہر رجوع کرنے والے بندے کے لئے بینائی اور دانائی کا ذریعہ ہو

اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا اور اس سے باغات اور کٹنے والے کھیت کے غلے پیدا کیے

اور کھجوروں کے بلند وباﻻ درخت جن کے خوشے تہ بہ تہ ہیں

بندوں کی روزی کے لئے اور ہم نے پانی سے مرده شہر کو زنده کر دیا۔ اسی طرح (قبروں سے) نکلنا ہے

ان سے پہلے نوح کی قوم نے اور رس والوں نے اور ﺛمود نے

اور عاد نے فرعون نے اور برادران لوط نے

اور ایکہ والوں نے تبع کی قوم نے بھی تکذیب کی تھی۔ سب نے پیغمبروں کو جھٹلایا پس میرا وعدہٴ عذاب ان پر صادق آگیا

کیا ہم پہلی بار کے پیدا کرنے سے تھک گئے؟ بلکہ یہ لوگ نئی پیدائش کی طرف سے شک میں ہیں

ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں جو خیاﻻت اٹھتے ہیں ان سے ہم واقف ہیں اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیاده اس سے قریب ہیں

جس وقت دو لینے والے جا لیتے ہیں ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف بیٹھا ہوا ہے

(انسان) منھ سے کوئی لفﻆ نکال نہیں پاتا مگر کہ اس کے پاس نگہبان تیار ہے

اور موت کی بے ہوشی حق لے کر آ پہنچی، یہی ہے جس سے تو بدکتا پھرتا تھا

اور صور پھونک دیا جائے گا۔ وعدہٴ عذاب کا دن یہی ہے

اور ہر شخص اس طرح آئے گا کہ اس کے ساتھ ایک ﻻنے واﻻ ہوگا اور ایک گواہی دینے واﻻ

یقیناً تو اس سے غفلت میں تھا لیکن ہم نے تیرے سامنے سے پرده ہٹا دیا پس آج تیری نگاه بہت تیز ہے

اس کا ہم نشین (فرشتہ) کہے گا یہ حاضر ہے جو کہ میرے پاس تھا

ڈال دو جہنم میں ہر کافر سرکش کو

جو نیک کام سے روکنے واﻻ حد سے گزر جانے واﻻ اور شک کرنے واﻻ تھا

جس نے اللہ کے ساتھ دوسرا معبود بنا لیا تھا پس اسے سخت عذاب میں ڈال دو

اس کا ہمنشین (شیطان) کہے گا اے ہمارے رب! میں نے اسے گمراه نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود ہی دور دراز کی گمراہی میں تھا

حق تعالیٰ فرمائے گا بس میرے سامنے جھگڑنے کی بات مت کرو میں تو پہلے ہی تمہاری طرف وعید (وعدہٴ عذاب) بھیج چکا تھا

میرے ہاں بات بدلتی نہیں اور نہ میں اپنے بندوں پر ذرا بھی ﻇلم کرنے واﻻ ہوں

جس دن ہم دوزخ سے پوچھیں گے کیا تو بھر چکی؟ وه جواب دے گی کیا کچھ اور زیاده بھی ہے؟

اور جنت پرہیزگاروں کے لئے بالکل قریب کر دی جائے گی ذرا بھی دور نہ ہوگی

یہ ہے جس کا تم سے وعده کیا جاتا تھا ہر اس شخص کے لئے جو رجوع کرنے واﻻ اور پابندی کرنے واﻻ ہو

جو رحمٰن کا غائبانہ خوف رکھتا ہو اور توجہ واﻻ دل ﻻیا ہو

تم اس جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔ یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے

یہ وہاں جو چاہیں انھیں ملے گا (بلکہ) ہمارے پاس اور بھی زیاده ہے

اور ان سے پہلے بھی ہم بہت سی امتوں کو ہلاک کر چکے ہیں جو ان سے طاقت میں بہت زیاده تھیں وه شہروں میں ڈھونڈھتے ہی ره گئے، کہ کوئی بھاگنے کا ٹھکانہ ہے؟

اس میں ہر صاحب دل کے لئے عبرت ہے اور اس کے لئے جو دل سے متوجہ ہو کر کان لگائے اور وه حاضر ہو

یقیناً ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اس کے درمیان ہے سب کو (صرف) چھ دن میں پیدا کر دیا اور ہمیں تکان نے چھوا تک نہیں

پس یہ جو کچھ کہتے ہیں آپ اس پر صبر کریں اور اپنے رب کی تسبیح تعریف کے ساتھ بیان کریں سورج نکلنے سے پہلے بھی اور سورج غروب ہونے سے پہلے بھی

اور رات کے وقت بھی تسبیح کریں اور نماز کے بعد بھی

اور سن رکھیں کہ جس دن ایک پکارنے واﻻ قریب ہی کی جگہ سے پکارے گا

جس روز اس تند وتیز چیﺦ کو یقین کے ساتھ سن لیں گے، یہ دن ہوگا نکلنے کا

ہم ہی جلاتے ہیں اور ہم ہی مارتے ہیں اور ہماری ہی طرف لوٹ پھر کر آنا ہے

جس دن زمین پھٹ جائے گی اور یہ دوڑتے ہوئے (نکل پڑیں گے) یہ جمع کر لینا ہم پر بہت ہی آسان ہے

یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ہم بخوبی جانتے ہیں اور آپ ان پر جبر کرنے والے نہیں، تو آپ قرآن کے ذریعے انہیں سمجھاتے رہیں جو میرے وعید (ڈرانے کے وعدوں) سے ڈرتے ہیں
سورة ق
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورةُ (ق) من السُّوَر المكية، نزلت بعد سورة (المُرسَلات)، وقد افتُتحت بالتنويه بهذا الكتابِ، وتذكيرِ الكفار بأصل خِلْقتهم، وقدرة الله عز وجل على الإحياء من عدمٍ؛ وذلك دليلٌ صريح على قُدْرته على بعثِهم وحسابهم بعد أن أوجَدهم، وفي ذلك دعوةٌ لهم إلى الإيمان بعد أن بيَّن اللهُ لهم مصيرَ من آمن ومصيرَ من كفر، وقد كان صلى الله عليه وسلم يقرؤها في صلاةِ الفجر.

ترتيبها المصحفي
50
نوعها
مكية
ألفاظها
373
ترتيب نزولها
34
العد المدني الأول
45
العد المدني الأخير
45
العد البصري
45
العد الكوفي
45
العد الشامي
45

* سورةُ (ق):

سُمِّيت سورةُ (ق) بهذا الاسمِ؛ لافتتاحها بهذا الحرفِ.

* كان النبيُّ صلى الله عليه وسلم يقرأُ سورة (ق) في صلاةِ الفجر:

عن جابرِ بن سَمُرةَ رضي الله عنه، قال: «إنَّ النبيَّ ﷺ كان يَقرأُ في الفجرِ بـ {قٓۚ وَاْلْقُرْءَانِ اْلْمَجِيدِ}، وكان صلاتُه بعدُ تخفيفًا». أخرجه مسلم (٤٥٨).

* وكذلك كان صلى الله عليه وسلم يقرأ سورة (ق) في عيدَيِ الفطرِ والأضحى:

عن عُبَيدِ اللهِ بن عبدِ اللهِ: «أنَّ عُمَرَ بنَ الخطَّابِ سألَ أبا واقدٍ اللَّيْثيَّ: ما كان رسولُ اللهِ ﷺ يَقرأُ في الفِطْرِ والأضحى؟ قال: كان النبيُّ ﷺ يَقرأُ بـ {قٓۚ وَاْلْقُرْءَانِ اْلْمَجِيدِ}، و{اْقْتَرَبَتِ اْلسَّاعَةُ وَاْنشَقَّ اْلْقَمَرُ}». أخرجه ابن حبان (٢٨٢٠).

1. إنكار المشركين للبعث (١-٥).

2. التأمُّل في الآيات (٦-١٥).

3. التأمل في الأنفس خَلْقًا ومآلًا (١٦-٣٨).

4. توجيهات للرسول، وتهديد للمشركين (٣٩-٤٥).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (7 /402).

مقصودُ السورة الدَّلالة على قدرة الله عز وجل أن يَبعَثَ الناسَ بعد موتهم، وأكبَرُ دليلٍ على ذلك خَلْقُهم من عدمٍ، وهو أصعب من بعثِهم من موجود، وفي ذلك يقول البِقاعيُّ رحمه الله: «مقصودها: الدلالةُ على إحاطة القدرة، التي هي نتيجة ما خُتمت به الحُجُرات من إحاطةِ العلم؛ لبيانِ أنه لا بد من البعث ليوم الوعيد؛ لتنكشفَ هذه الإحاطةُ بما يحصل من الفصل بين العباد بالعدل؛ لأن ذلك سِرُّ المُلك، الذي هو سرُّ الوجود.

والذي تكفَّلَ بالدلالة على هذا كلِّه: ما شُوهِد من إحاطة مجدِ القرآن بإعجازه في بلوغه - في كلٍّ من جمعِ المعاني وعلوِّ التراكيب، وجلالة المفرَدات وجزالةِ المقاصد، وتلاؤم الحروف وتناسُبِ النظم، ورشاقة الجمع وحلاوة التفصيل - إلى حدٍّ لا تُطيقه القُوَى من إحاطةِ أوصاف الرسل، الذي اختاره سبحانه لإبلاغِ هذا الكتاب، في الخَلْقِ والخُلُق، وما شُوهِد من إحاطة القدرة بما هدى إليه القرآنُ من آيات الإيجاد والإعدام». "مصاعد النظر للإشراف على مقاصد السور " للبقاعي (3 /15).