ترجمة سورة الأحزاب

محمد جوناگڑھی - Urdu translation

ترجمة معاني سورة الأحزاب باللغة الأردية من كتاب محمد جوناگڑھی - Urdu translation.

احزاب


اے نبی! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آجانا، اللہ تعالیٰ بڑے علم واﻻ اور بڑی حکمت واﻻ ہے

جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے اس کی تابعداری کریں (یقین مانو) کہ اللہ تمہارے ہر ایک عمل سے باخبر ہے

آپ اللہ ہی پر توکل رکھیں، وه کار سازی کے لئے کافی ہے

کسی آدمی کے سینے میں اللہ تعالیٰ نے دو دل نہیں رکھے، اور اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو انہیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ کی) مائیں نہیں بنایا، اور نہ تمہارے لے پالک لڑکوں کو (واقعی) تمہارے بیٹے بنایا ہے، یہ تو تمہارے اپنے منھ کی باتیں ہیں، اللہ تعالیٰ حق بات فرماتا ہے اور وه (سیدھی) راه سجھاتا ہے

لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی ہے۔ پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو وه تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں، تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناه نہیں، البتہ گناه وه ہے جس کا تم اراده دل سے کرو۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے واﻻ مہربان ہے

پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیاده حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں، اور رشتے دار کتاب اللہ کی رو سے بہ نسبت دوسرے مومنوں اور مہاجروں کے آپس میں زیاده حق دار ہیں (ہاں) مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو۔ یہ حکم کتاب (الٰہی) میں لکھا ہوا ہے

جب کہ ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا اور (بالخصوص) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ سے، اور ہم نے ان سے (پکا اور) پختہ عہد لیا

تاکہ اللہ تعالیٰ سچوں سے ان کی سچائی کے بارے میں دریافت فرمائے، اور کافروں کے لئے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھے ہیں

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو احسان تم پر کیا اسے یاد کرو جبکہ تمہارے مقابلے کو فوجوں پر فوجیں آئیں پھر ہم نے ان پر تیز وتند آندھی اور ایسے لشکر بھیجے جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھتا ہے

جب کہ (دشمن) تمہارے پاس اوپر سے اور نیچے سے چڑھ آئے اور جب کہ آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منھ کو آگئے اور تم اللہ تعالیٰ کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے

یہیں مومن آزمائے گئے اور پوری طرح وه جھنجھوڑ دیئے گئے

اور اس وقت منافق اور وه لوگ جن کے دلوں میں (شک کا) روگ تھا کہنے لگے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکا فریب کا ہی وعده کیا تھا

ان ہی کی ایک جماعت نے ہانک لگائی کہ اے مدینہ والو! تمہارے لئے ٹھکانہ نہیں چلو لوٹ چلو، اور ان کی ایک اور جماعت یہ کہہ کر نبی ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ سے اجازت مانگنے لگی کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں، حاﻻنکہ وه (کھلے ہوئے اور) غیر محفوظ نہ تھے (لیکن) ان کا پختہ اراده بھاگ کھڑے ہونے کا تھا

اور اگر مدینے کے اطراف سے ان پر (لشکر) داخل کیے جاتے پھر ان سے فتنہ طلب کیا جاتا تو یہ ضرور اسے برپا کر دیتے اور نہ لڑتے مگر تھوڑی مدت

اس سے پہلے تو انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ پیٹھ نہ پھیریں گے، اور اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے وعده کی باز پرس ضرور ہوگی

کہہ دیجئے کہ گو تم موت سے یا خوف قتل سے بھاگو تو یہ بھاگنا تمہیں کچھ بھی کام نہ آئے گا اور اس وقت تم بہت ہی کم فائده اٹھاؤ گے

پوچھیئے! تو کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی برائی پہنچانا چاہے یا تم پر کوئی فضل کرنا چاہے تو کون ہے جو تمہیں بچا سکے (یا تم سے روک سکے؟)، اپنے لیے بجز اللہ تعالیٰ کے نہ کوئی حمایتی پائیں گے نہ مددگار

اللہ تعالیٰ تم میں سے انہیں (بخوبی) جانتا ہے جو دوسروں کو روکتے ہیں اور اپنے بھائی بندوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس چلے آؤ۔ اور کبھی کبھی ہی لڑائی میں آجاتے ہیں

تمہاری مدد میں (پورے) بخیل ہیں، پھر جب خوف ودہشت کا موقعہ آجائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف نظریں جما دیتے ہیں اور ان کی انکھیں اس طرح گھومتی ہیں جیسے اس شخص کی جس پر موت کی غشی طاری ہو۔ پھر جب خوف جاتا رہتا ہے تو تم پر اپنی تیز زبانوں سے بڑی باتیں بناتے ہیں مال کے بڑے ہی حریص ہیں، یہ ایمان ﻻئے ہی نہیں ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام اعمال نابود کر دیئے ہیں، اور اللہ تعالیٰ پر یہ بہت ہی آسان ہے

سمجھتے ہیں کہ اب تک لشکر چلے نہیں گئے، اور اگر فوجیں آجائیں تو تمنائیں کرتے ہیں کہ کاش! وه صحرا میں بادیہ نشینوں کے ساتھ ہوتے کہ تمہاری خبریں دریافت کیا کرتے، اگر وه تم میں موجود ہوتے (تو بھی کیا؟) نہ لڑتے مگر برائے نام

یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے

اور ایمان والوں نے جب (کفار کے) لشکروں کو دیکھا (بے ساختہ) کہہ اٹھے! کہ انہیں کا وعده ہمیں اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے دیا تھا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا، اور اس (چیز) نے ان کے ایمان میں اور شیوہٴ فرماں برداری میں اور اضافہ کر دیا

مومنوں میں (ایسے) لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا، بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض (موقعہ کے) منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی

تاکہ اللہ تعالیٰ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے اور اگر چاہے تو منافقوں کو سزا دے یا ان کی توبہ قبول فرمائے، اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے واﻻ بہت ہی مہربان ہے

اور اللہ تعالیٰ نےکافروں کو غصے بھرے ہوئے ہی (نامراد) لوٹا دیا انہوں نے کوئی فائده نہیں پایا، اور اس جنگ میں اللہ تعالیٰ خود ہی مومنوں کو کافی ہوگیا اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں واﻻ اور غالب ہے

اور جن اہل کتاب نے ان سے سازباز کر لی تھی انہیں (بھی) اللہ تعالیٰ نے ان کے قلعوں سے نکال دیا اور ان کے دلوں میں (بھی) رعب بھر دیا کہ تم ان کے ایک گروه کو قتل کر رہے ہو اور ایک گروه کو قیدی بنا رہے ہو

اور اس نے تمہیں ان کی زمینوں کا اور ان کے گھر بار کا اور ان کے مال کا وارث کر دیا اور اس زمین کا بھی جس کو تمہارے قدموں نے روندا نہیں، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے

اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دﻻ دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں

اور اگر تمہاری مراد اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر ہے تو (یقین مانو کہ) تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے بہت زبردست اجر رکھ چھوڑے ہیں

اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو بھی کھلی بے حیائی (کا ارتکاب) کرے گی اسے دوہرا دوہرا عذاب دیا جائے گا، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت ہی سہل (سی بات) ہے

اور تم میں سے جو کوئی اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گی اور نیک کام کرے گی ہم اسے اجر (بھی) دوہرا دیں گے اور اس کے لئے ہم نے بہترین روزی تیار کر رکھی ہے

اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وه کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو

اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اﻇہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰة دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو۔ اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وه (ہر قسم کی) گندگی کو دور کردے اور تمہیں خوب پاک کردے

اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی احادیﺚ پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ لطف کرنے واﻻ خبردار ہے

بےشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں مومن مرد اور مومن عورتیں فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرمانبردار عورتیں راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اپنی شرمگاه کی حفاﻇت کرنے والے مرد اور حفاﻇت کرنے والیاں بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان (سب کے) لئے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور بڑا ﺛواب تیار کر رکھا ہے

اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وه صریح گمراہی میں پڑے گا

(یاد کرو) جب کہ تو اس شخص سے کہہ رہا تھا جس پر اللہ نے بھی انعام کیا اور تو نے بھی کہ تو اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر اور تو اپنے دل میں وه بات چھپائے ہوئے تھا جسے اللہ ﻇاہر کرنے واﻻ تھا اور تو لوگوں سے خوف کھاتا تھا، حاﻻنکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیاده حق دار تھا کہ تو اس سے ڈرے، پس جب کہ زید نے اس عورت سے اپنی غرض پوری کرلی ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا تاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالکوں کی بیویوں کے بارے میں کسی طرح کی تنگی نہ رہے جب کہ وه اپنی غرض ان سے پوری کرلیں، اللہ کا (یہ) حکم تو ہو کر ہی رہنے واﻻ تھا

جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لئے مقرر کی ہیں ان میں نبی پر کوئی حرج نہیں، (یہی) اللہ کا دستور ان میں بھی رہا جو پہلے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے کام اندازے پر مقرر کئے ہوئے ہیں

یہ سب ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچایا کرتے تھے اور اللہ ہی سے ڈرتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے، اور اللہ تعالیٰ حساب لینے کے لئے کافی ہے

(لوگو) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ نہیں لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے، اور اللہ تعالی ہر چیز کا (بخوبی) جاننے واﻻ ہے

مسلمانو! اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت زیاده کرو

اور صبح وشام اس کی پاکیزگی بیان کرو

وہی ہے جو تم پر اپنی رحمتیں بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے (تمہارے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں) تاکہ وه تمہیں اندھیروں سے اجالے کی طرف لے جائے اور اللہ تعالیٰ مومنوں پر بہت ہی مہربان ہے

جس دن یہ (اللہ سے) ملاقات کریں گے ان کا تحفہ سلام ہوگا، ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے باعزت اجر تیار کر رکھا ہے

اے نبی! یقیناً ہم نے ہی آپ کو (رسول بنا کر) گواہیاں دینے واﻻ، خوشخبریاں سنانے واﻻ، آگاه کرنے واﻻ بھیجا ہے

اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے واﻻ اور روشن چراغ

آپ مومنوں کو خوشخبری سنا دیجئے! کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بہت بڑا فضل ہے

اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ مانیئے! اور جو ایذا (ان کی طرف سے پہنچے) اس کا خیال بھی نہ کیجیئے اللہ پر بھروسہ کئے رہیں، اور کافی ہے اللہ تعالیٰ کام بنانے واﻻ

اے مومنو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے (ہی) طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو، پس تم کچھ نہ کچھ انہیں دے دو اور بھلے طریق پر انہیں رخصت کر دو

اے نبی! ہم نے تیرے لئے تیری وه بیویاں حلال کر دی ہیں جنہوں تو ان کا مہر دے چکا ہے اور وه لونڈیاں بھی جو اللہ تعالیٰ نے غنیمت میں تجھے دی ہیں اور تیرے چچا کی لڑکیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خاﻻؤں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے، اور وه باایمان عورت جو اپنا نفس نبی کو ہبہ کردے یہ اس صورت میں کہ خود نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہے، یہ خاص طور پر صرف تیرے لئے ہی ہے اور مومنوں کے لئے نہیں، ہم اسے بخوبی جانتے ہیں جو ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں (احکام) مقرر کر رکھے ہیں، یہ اس لئے کہ تجھ پر حرج واقع نہ ہو، اللہ تعالیٰ بہت بخشنے اور بڑے رحم واﻻ ہے

ان میں سے جسے تو چاہے دور رکھ دے اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے، اور اگر تو نے ان میں سے بھی کسی کو اپنے پاس بلالے جنہیں تو نے الگ کر رکھا تھا تو تجھ پر کوئی گناه نہیں، اس میں اس بات کی زیاده توقع ہے کہ ان عورتوں کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وه رنجیده نہ ہوں اور جو کچھ بھی تو انہیں دے دے اس پر سب کی سب راضی رہیں۔ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے اللہ (خوب) جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی علم اور حلم واﻻ ہے

اس کے بعد اور عورتیں آپ کے لئے حلال نہیں اور نہ یہ (درست ہے) کہ ان کے بدلے اور عورتوں سے (نکاح کرے) اگر چہ ان کی صورت اچھی بھی لگتی ہو مگر جو تیری مملوکہ ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا (پورا) نگہبان ہے

اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لئے ایسے وقت میں کہ اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو بلکہ جب بلایا جائے جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہوجایا کرو۔ نبی کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے۔ تو وه لحاظ کر جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ (بیان) حق میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا، جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو۔ تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے کامل پاکیزگی یہی ہے، نہ تمہیں یہ جائز ہے کہ تم رسول اللہ کو تکلیف دو اور نہ تمہیں یہ حلال ہے کہ آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو۔ (یاد رکھو) اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا (گناه) ہے

تم کسی چیز کو ﻇاہر کرو یا مخفی رکھو اللہ تو ہر ہر چیز کا بخوبی علم رکھنے واﻻ ہے

ان عورتوں پر کوئی گناه نہیں کہ وه اپنے باپوں اور اپنے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی (میل جول کی) عورتوں اور ملکیت کے ماتحتوں (لونڈی، غلام) کے سامنے ہوں۔ (عورتو!) اللہ سے ڈرتی رہو۔ اللہ تعالیٰ یقیناً ہر چیز پر شاہد ہے

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسوا کن عذاب ہے

اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو، وه (بڑے ہی) بہتان اور صریح گناه کا بوجھ اٹھاتے ہیں

اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتیں سے کہہ دو کہ وه اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں، اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی، اور اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے

اگر (اب بھی) یہ منافق اور وه جن کے دلوں میں بیماری ہے اور وه لوگ جو مدینہ میں غلط افواہیں اڑانے والے ہیں باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان (کی تباہی) پر مسلط کردیں گے پھر تو وه چند دن ہی آپ کے ساتھ اس (شہر) میں ره سکیں گے

ان پر پھٹکار برسائی گئی، جہاں بھی مل جائیں پکڑے جائیں اور خوب ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں

ان سے اگلوں میں بھی اللہ کا یہی دستور جاری رہا۔ اور تو اللہ کے دستور میں ہرگز ردوبدل نہ پائے گا

لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیئے! کہ اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے، آپ کو کیا خبر بہت ممکن ہے قیامت بالکل ہی قریب ہو

اللہ تعالیٰ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے

جس میں وه ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ وه کوئی حامی ومددگار نہ پائیں گے

اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے۔ (حسرت وافسوس سے) کہیں گے کہ کاش ہم اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرتے

اور کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں راه راست سے بھٹکا دیا

پروردگار تو انہیں دگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت نازل فرما

اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ بن جاؤ جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی پس جو بات انہوں نے کہی تھی اللہ نے انہیں اس سے بری فرما دیا، اور وه اللہ کے نزدیک باعزت تھے

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو

تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناه معاف فرما دے، اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی

ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اسے اٹھا لیا، وه بڑا ہی ﻇالم جاہل ہے

(یہ اس لئے) کہ اللہ تعالیٰ منافق مردوں عورتوں اور مشرک مردوں عورتوں کو سزا دے اور مومن مردوں عورتوں کی توبہ قبول فرمائے، اور اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے واﻻ اور مہربان ہے
سورة الأحزاب
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورةُ (الأحزاب) من السُّوَر المدنيَّة، وقد تعرَّضتْ لذِكْرِ كثيرٍ من الأحداث والأحكام؛ على رأسِ تلك الأحداثِ قصةُ غزوة (الأحزاب)، وما تعلق بها مِن عِبَرٍ وعِظات؛ كحُسْنِ الظن بالله، والاعتماد عليه، مشيرةً إلى غَدْرِ اليهود، وأخلاقهم الشائنة، كما اشتملت السورةُ على ذكرِ آية الحِجاب، وذكرِ آداب الاستئذان، والدخول على النبيِّ صلى الله عليه وسلم، وخُتِمت السورةُ بكثيرٍ من التوجيهات والعِظات للمؤمنين.

ترتيبها المصحفي
33
نوعها
مدنية
ألفاظها
1303
ترتيب نزولها
90
العد المدني الأول
73
العد المدني الأخير
73
العد البصري
73
العد الكوفي
73
العد الشامي
73

* قوله تعالى: {اْدْعُوهُمْ لِأٓبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اْللَّهِۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوٓاْ ءَابَآءَهُمْ فَإِخْوَٰنُكُمْ فِي اْلدِّينِ وَمَوَٰلِيكُمْۚ} [الأحزاب: 5]:

عن عائشةَ أمِّ المؤمنين رضي الله عنها: «أنَّ أبا حُذَيفةَ بنَ عُتْبةَ بنِ ربيعةَ بنِ عبدِ شمسٍ - وكان ممَّن شَهِدَ بَدْرًا مع النبيِّ صلى الله عليه وسلم - تَبنَّى سالمًا، وأنكَحَه بنتَ أخيه هندَ بنتَ الوليدِ بنِ عُتْبةَ بنِ ربيعةَ، وهو مولًى لامرأةٍ مِن الأنصارِ؛ كما تَبنَّى النبيُّ صلى الله عليه وسلم زيدًا، وكان مَن تَبنَّى رجُلًا في الجاهليَّةِ، دعَاه الناسُ إليه، ووَرِثَ مِن ميراثِه، حتى أنزَلَ اللهُ: {اْدْعُوهُمْ لِأٓبَآئِهِمْ} إلى قولِه: {وَمَوَٰلِيكُمْۚ} [الأحزاب: 5]؛ فرُدُّوا إلى آبائِهم؛ فمَن لم يُعلَمْ له أبٌ، كان مولًى وأخًا في الدِّينِ، فجاءت سَهْلةُ بنتُ سُهَيلِ بنِ عمرٍو القُرَشيِّ ثم العامريِّ - وهي امرأةُ أبي حُذَيفةَ بنِ عُتْبةَ - النبيَّ صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسولَ اللهِ، إنَّا كنَّا نرى سالمًا ولدًا، وقد أنزَلَ اللهُ فيه ما قد عَلِمْتَ...» فذكَر الحديثَ. أخرجه البخاري (5088).

* قوله تعالى: {مِّنَ اْلْمُؤْمِنِينَ رِجَالٞ صَدَقُواْ مَا عَٰهَدُواْ اْللَّهَ عَلَيْهِۖ} [الأحزاب: 23]:

عن حُمَيدٍ الطَّويلِ، عن أنسِ بن مالكٍ رضي الله عنه، قال: «غابَ عَمِّي أنسُ بنُ النَّضْرِ عن قتالِ بَدْرٍ، فقال: يا رسولَ اللهِ، غِبْتُ عن أوَّلِ قتالٍ قاتَلْتَ المشرِكين، لَئِنِ اللهُ أشهَدَني قتالَ المشرِكين لَيَرَيَنَّ اللهُ ما أصنَعُ، فلمَّا كان يومُ أُحُدٍ، وانكشَفَ المسلمون، قال: اللهمَّ إنِّي أعتذِرُ إليك ممَّا صنَعَ هؤلاء - يعني أصحابَه -، وأبرَأُ إليك ممَّا صنَعَ هؤلاء - يعني المشرِكين -، ثم تقدَّمَ، فاستقبَلَه سعدُ بنُ مُعاذٍ، فقال: يا سعدُ بنَ مُعاذٍ، الجَنَّةَ ورَبِّ النَّضْرِ! إنِّي أجدُ رِيحَها مِن دُونِ أُحُدٍ، قال سعدٌ: فما استطَعْتُ يا رسولَ اللهِ ما صنَعَ». قال أنسٌ: «فوجَدْنا به بِضْعًا وثمانينَ ضَرْبةً بالسَّيفِ، أو طَعْنةً برُمْحٍ، أو رَمْيةً بسَهْمٍ، ووجَدْناه قد قُتِلَ، وقد مثَّلَ به المشرِكون، فما عرَفَه أحدٌ إلا أختُه ببنانِه». قال أنسٌ: كنَّا نُرى أو نظُنُّ أنَّ هذه الآيةَ نزَلتْ فيه وفي أشباهِه: {مِّنَ اْلْمُؤْمِنِينَ رِجَالٞ صَدَقُواْ مَا عَٰهَدُواْ اْللَّهَ عَلَيْهِۖ} [الأحزاب: 23] إلى آخرِ الآيةِ». وقال: «إنَّ أختَه - وهي تُسمَّى الرُّبَيِّعَ - كسَرتْ ثَنِيَّةَ امرأةٍ، فأمَرَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم بالقِصاصِ، فقال أنسٌ: يا رسولَ اللهِ، والذي بعَثَك بالحقِّ، لا تُكسَرُ ثَنِيَّتُها، فرَضُوا بالأَرْشِ، وترَكوا القِصاصَ، فقال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «إنَّ مِن عبادِ اللهِ مَن لو أقسَمَ على اللهِ لَأبَرَّه»». أخرجه البخاري (٢٨٠٥).

* قوله تعالى: {وَكَفَى اْللَّهُ اْلْمُؤْمِنِينَ اْلْقِتَالَۚ} [الأحزاب: 25]:

عن أبي سعيدٍ الخُدْريِّ رضي الله عنه، قال: «شغَلَنا المشرِكون يومَ الخَنْدقِ عن صلاةِ الظُّهْرِ حتى غرَبتِ الشَّمْسُ، وذلك قبل أن يَنزِلَ في القتالِ ما نزَلَ؛ فأنزَلَ اللهُ عز وجل: {وَكَفَى اْللَّهُ اْلْمُؤْمِنِينَ اْلْقِتَالَۚ} [الأحزاب: 25]، فأمَرَ بِلالًا فأذَّنَ وأقامَ فصلَّى الظُّهْرَ، ثمَّ أمَرَه فأقامَ فصلَّى العصرَ، ثمَّ أمَرَه فأقامَ فصلَّى المغربَ، ثمَّ أمَرَه فأقامَ فصلَّى العِشاءَ». أخرجه النسائي (٦٦١).

* قوله تعالى: {يَٰٓأَيُّهَا اْلنَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اْلْحَيَوٰةَ اْلدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحٗا جَمِيلٗا ٢٨ وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اْللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَاْلدَّارَ اْلْأٓخِرَةَ فَإِنَّ اْللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَٰتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمٗا} [الأحزاب: 28-29]:

عن عبدِ اللهِ بن عباسٍ رضي الله عنهما، قال: «لم أزَلْ حريصًا على أن أسألَ عُمَرَ رضي الله عنه عن المرأتَينِ مِن أزواجِ النبيِّ صلى الله عليه وسلم اللَّتَينِ قال اللهُ لهما: {إِن ‌تَتُوبَآ إِلَى اْللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَاۖ} [التحريم: 4]، فحجَجْتُ معه، فعدَلَ وعدَلْتُ معه بالإداوةِ، فتبرَّزَ حتى جاءَ، فسكَبْتُ على يدَيهِ مِن الإداوةِ فتوضَّأَ، فقلتُ: يا أميرَ المؤمنين، مَن المرأتانِ مِن أزواجِ النبيِّ صلى الله عليه وسلم اللَّتانِ قال اللهُ عز وجل لهما: {إِن ‌تَتُوبَآ إِلَى اْللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَاۖ} [التحريم: 4]؟ فقال: واعجبي لك يا بنَ عبَّاسٍ! عائشةُ وحَفْصةُ، ثمَّ استقبَلَ عُمَرُ الحديثَ يسُوقُه، فقال:

إنِّي كنتُ وجارٌ لي مِن الأنصارِ في بني أُمَيَّةَ بنِ زيدٍ، وهي مِن عوالي المدينةِ، وكنَّا نتناوَبُ النُّزولَ على النبيِّ صلى الله عليه وسلم، فيَنزِلُ يومًا وأنزِلُ يومًا، فإذا نزَلْتُ جِئْتُه مِن خَبَرِ ذلك اليومِ مِن الأمرِ وغيرِه، وإذا نزَلَ فعَلَ مِثْلَه، وكنَّا مَعشَرَ قُرَيشٍ نَغلِبُ النِّساءَ، فلمَّا قَدِمْنا على الأنصارِ إذا هم قومٌ تَغلِبُهم نساؤُهم، فطَفِقَ نساؤُنا يأخُذْنَ مِن أدبِ نساءِ الأنصارِ، فصِحْتُ على امرأتي، فراجَعتْني، فأنكَرْتُ أن تُراجِعَني، فقالت: ولِمَ تُنكِرُ أن أُراجِعَك؟! فواللهِ، إنَّ أزواجَ النبيِّ صلى الله عليه وسلم لَيُراجِعْنُه، وإنَّ إحداهنَّ لَتهجُرُه اليومَ حتى اللَّيلِ، فأفزَعَني، فقلتُ: خابَتْ مَن فعَلَ منهنَّ بعظيمٍ، ثم جمَعْتُ عليَّ ثيابي، فدخَلْتُ على حَفْصةَ، فقلتُ: أيْ حَفْصةُ، أتُغاضِبُ إحداكنَّ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم اليومَ حتى اللَّيلِ؟ فقالت: نَعم، فقلت: خابَتْ وخَسِرتْ! أفتأمَنُ أن يَغضَبَ اللهُ لغضَبِ رسولِه صلى الله عليه وسلم فتَهلِكِينَ؟! لا تَستكثري على رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، ولا تُراجِعيه في شيءٍ، ولا تهجُريه، واسأليني ما بدا لكِ، ولا يغُرَّنَّكِ أن كانت جارتُك هي أوضأَ منك، وأحَبَّ إلى رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم - يريدُ عائشةَ -.

وكنَّا تحدَّثْنا أنَّ غسَّانَ تُنعِلُ النِّعالَ لغَزْوِنا، فنزَلَ صاحبي يومَ نَوْبتِه، فرجَعَ عِشاءً، فضرَبَ بابي ضربًا شديدًا، وقال: أنائمٌ هو؟! ففَزِعْتُ، فخرَجْتُ إليه، وقال: حدَثَ أمرٌ عظيمٌ، قلتُ: ما هو؟ أجاءت غسَّانُ؟ قال: لا، بل أعظَمُ منه وأطوَلُ، طلَّقَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم نساءَه، قال: قد خابَتْ حَفْصةُ وخَسِرتْ، كنتُ أظُنُّ أنَّ هذا يُوشِكُ أن يكونَ، فجمَعْتُ عليَّ ثيابي، فصلَّيْتُ صلاةَ الفجرِ مع النبيِّ صلى الله عليه وسلم، فدخَلَ مَشرُبةً له، فاعتزَلَ فيها، فدخَلْتُ على حَفْصةَ فإذا هي تَبكِي، قلتُ: ما يُبكِيكِ؟ أوَلَمْ أكُنْ حذَّرْتُكِ؟! أطلَّقَكنَّ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم؟! قالت: لا أدري! هو ذا في المَشرُبةِ، فخرَجْتُ، فجِئْتُ المِنبَرَ، فإذا حَوْلَه رَهْطٌ يَبكِي بعضُهم، فجلَسْتُ معهم قليلًا، ثم غلَبَني ما أجدُ، فجِئْتُ المَشرُبةَ التي هو فيها، فقلتُ لغلامٍ له أسوَدَ: استأذِنْ لِعُمَرَ، فدخَلَ، فكلَّمَ النبيَّ صلى الله عليه وسلم، ثم خرَجَ، فقال: ذكَرْتُك له فصمَتَ، فانصرَفْتُ حتى جلَسْتُ مع الرَّهْطِ الذين عند المِنبَرِ، ثمَّ غلَبَني ما أجدُ، فجِئْتُ، فذكَرَ مِثْلَه، فجلَسْتُ مع الرَّهْطِ الذين عند المِنبَرِ، ثمَّ غلَبَني ما أجدُ، فجِئْتُ الغلامَ، فقلتُ: استأذِنْ لِعُمَرَ، فذكَرَ مِثْلَه، فلمَّا ولَّيْتُ منصرِفًا، فإذا الغلامُ يَدْعوني، قال: أَذِنَ لك رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فدخَلْتُ عليه، فإذا هو مضطجِعٌ على رمالِ حصيرٍ ليس بَيْنه وبَيْنه فِراشٌ قد أثَّرَ الرِّمالُ بجَنْبِه، متَّكِئٌ على وسادةٍ مِن أَدَمٍ حَشْوُها لِيفٌ، فسلَّمْتُ عليه، ثم قلتُ وأنا قائمٌ: طلَّقْتَ نساءَك؟ فرفَعَ بصَرَه إليَّ، فقال: «لا»، ثم قلتُ وأنا قائمٌ أستأنِسُ: يا رسولَ اللهِ، لو رأَيْتَني وكنَّا مَعشَرَ قُرَيشٍ نَغلِبُ النِّساءَ، فلمَّا قَدِمْنا على قومٍ تَغلِبُهم نساؤُهم، فذكَرَه، فتبسَّمَ النبيُّ صلى الله عليه وسلم، ثم قلتُ: لو رأَيْتَني، ودخَلْتُ على حَفْصةَ، فقلتُ: لا يغُرَّنَّكِ أنْ كانت جارتُكِ هي أوضأَ منكِ وأحَبَّ إلى النبيِّ صلى الله عليه وسلم - يريدُ عائشةَ -، فتبسَّمَ أخرى، فجلَسْتُ حينَ رأَيْتُه تبسَّمَ، ثم رفَعْتُ بصَري في بيتِه، فواللهِ ما رأَيْتُ فيه شيئًا يرُدُّ البصَرَ غيرَ أَهَبَةٍ ثلاثةٍ، فقلتُ: ادعُ اللهَ فَلْيُوسِّعْ على أُمَّتِك؛ فإنَّ فارسَ والرُّومَ وُسِّعَ عليهم، وأُعطُوا الدُّنيا وهم لا يعبُدون اللهَ، وكان متَّكِئًا، فقال: «أوَفِي شكٍّ أنتَ يا بنَ الخطَّابِ؟! أولئك قومٌ عُجِّلتْ لهم طيِّباتُهم في الحياةِ الدنيا»، فقلتُ: يا رسولَ اللهِ، استغفِرْ لي، فاعتزَلَ النبيُّ صلى الله عليه وسلم مِن أجلِ ذلك الحديثِ حينَ أفشَتْهُ حَفْصةُ إلى عائشةَ، وكان قد قال: «ما أنا بداخلٍ عليهنَّ شهرًا»؛ مِن شِدَّةِ مَوْجِدتِه عليهنَّ حينَ عاتَبَه اللهُ، فلمَّا مضَتْ تِسْعٌ وعشرون، دخَلَ على عائشةَ، فبدَأَ بها، فقالت له عائشةُ: إنَّك أقسَمْتَ ألَّا تدخُلَ علينا شهرًا، وإنَّا أصبَحْنا لِتِسْعٍ وعِشْرينَ ليلةً أعُدُّها عدًّا؟! فقال النبيُّ صلى الله عليه وسلم: «الشَّهْرُ تِسْعٌ وعِشْرون»، وكان ذلك الشَّهْرُ تِسْعًا وعِشْرينَ، قالت عائشةُ: فأُنزِلتْ آيةُ التَّخييرِ، فبدَأَ بي أوَّلَ امرأةٍ، فقال: «إنِّي ذاكرٌ لكِ أمرًا، ولا عليكِ ألَّا تَعجَلي حتى تَستأمري أبوَيكِ»، قالت: قد أعلَمُ أنَّ أبوَيَّ لم يكُونا يأمُرانِي بفِراقك، ثم قال: «إنَّ اللهَ قال: {يَٰٓأَيُّهَا اْلنَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ} [الأحزاب: 28] إلى قولِه: {عَظِيمٗا} [الأحزاب: 29]»، قلتُ: أفي هذا أستأمِرُ أبوَيَّ؟! فإنِّي أريدُ اللهَ ورسولَه والدارَ الآخرةَ، ثم خيَّرَ نساءَه، فقُلْنَ مِثْلَ ما قالت عائشةُ». أخرجه البخاري (٢٤٦٨).

* قوله تعالى: {إِنَّ اْلْمُسْلِمِينَ وَاْلْمُسْلِمَٰتِ وَاْلْمُؤْمِنِينَ وَاْلْمُؤْمِنَٰتِ وَاْلْقَٰنِتِينَ وَاْلْقَٰنِتَٰتِ وَاْلصَّٰدِقِينَ وَاْلصَّٰدِقَٰتِ وَاْلصَّٰبِرِينَ وَاْلصَّٰبِرَٰتِ وَاْلْخَٰشِعِينَ وَاْلْخَٰشِعَٰتِ وَاْلْمُتَصَدِّقِينَ وَاْلْمُتَصَدِّقَٰتِ وَاْلصَّٰٓئِمِينَ وَاْلصَّٰٓئِمَٰتِ وَاْلْحَٰفِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَاْلْحَٰفِظَٰتِ وَاْلذَّٰكِرِينَ اْللَّهَ كَثِيرٗا وَاْلذَّٰكِرَٰتِ أَعَدَّ اْللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةٗ وَأَجْرًا عَظِيمٗا} [الأحزاب: 35]:

عن أُمِّ عطيَّةَ نُسَيبةَ بنتِ كعبٍ رضي الله عنها: أنَّها أتت النبيَّ ﷺ، فقالت: «ما أرى كلَّ شيءٍ إلا للرِّجالِ، وما أرى النِّساءَ يُذكَرْنَ بشيءٍ»؛ فنزَلتْ هذه الآيةُ: {إِنَّ اْلْمُسْلِمِينَ وَاْلْمُسْلِمَٰتِ وَاْلْمُؤْمِنِينَ وَاْلْمُؤْمِنَٰتِ} [الأحزاب: 35] الآيةَ. أخرجه الترمذي (٣٢١١).

* قوله تعالى: {وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اْللَّهُ مُبْدِيهِ} [الأحزاب: 37]:

عن أنسِ بن مالكٍ رضي الله عنه، قال: «جاء زيدُ بنُ حارثةَ يشكو زَيْنَبَ إلى رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فقال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «أمسِكْ عليك أهلَك»؛ فنزَلتْ: {وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اْللَّهُ مُبْدِيهِ} [الأحزاب: 37]». أخرجه ابن حبان (٧٠٤٥).

* قوله تعالى: {فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٞ مِّنْهَا وَطَرٗا زَوَّجْنَٰكَهَا} [الأحزاب: 37]:

عن أنسِ بن مالكٍ رضي الله عنه، قال: «لمَّا نزَلتْ هذه الآيةُ في زَيْنَبَ بنتِ جحشٍ {فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٞ مِّنْهَا وَطَرٗا زَوَّجْنَٰكَهَا} [الأحزاب: 37]، قال: فكانت تَفخَرُ على أزواجِ النبيِّ صلى الله عليه وسلم؛ تقولُ: زوَّجَكنَّ أهلُكنَّ، وزوَّجَني اللهُ مِن فوقِ سَبْعِ سمواتٍ». أخرجه الترمذي (3213).

* قوله تعالى: {تُرْجِي مَن تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَتُـْٔوِيٓ إِلَيْكَ مَن تَشَآءُۖ وَمَنِ اْبْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَۚ} [الأحزاب: 51]:

عن عائشةَ أمِّ المؤمنين رضي الله عنها، قالت: «كنتُ أغارُ على اللاتي وهَبْنَ أنفُسَهنَّ لرسولِ اللهِ ﷺ، وأقولُ: تَهَبُ المرأةُ نفسَها؟ فلمَّا أنزَلَ اللهُ: {تُرْجِي مَن تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَتُـْٔوِيٓ إِلَيْكَ مَن تَشَآءُۖ وَمَنِ اْبْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَۚ} [الأحزاب: 51]، قالت: قلتُ: واللهِ، ما أرى رَبَّك إلا يُسارِعُ في هواك». أخرجه البخاري (٤٧٨٨).

* قوله تعالى: {يَٰٓأَيُّهَا اْلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَدْخُلُواْ بُيُوتَ اْلنَّبِيِّ إِلَّآ أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَٰظِرِينَ إِنَىٰهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَاْدْخُلُواْ فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَاْنتَشِرُواْ وَلَا مُسْتَـْٔنِسِينَ لِحَدِيثٍۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي اْلنَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِۦ مِنكُمْۖ وَاْللَّهُ لَا يَسْتَحْيِۦ مِنَ اْلْحَقِّۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَٰعٗا فَسْـَٔلُوهُنَّ مِن وَرَآءِ حِجَابٖۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُواْ رَسُولَ اْللَّهِ وَلَآ أَن تَنكِحُوٓاْ أَزْوَٰجَهُۥ مِنۢ بَعْدِهِۦٓ أَبَدًاۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اْللَّهِ عَظِيمًا} [الأحزاب: 53]:

عن أنسِ بن مالكٍ رضي الله عنه، قال: «لمَّا تزوَّجَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم زَيْنَبَ بنتَ جَحْشٍ، دعَا القومَ، فطَعِموا ثمَّ جلَسوا يَتحدَّثون، وإذا هو كأنَّه يَتهيَّأُ للقيامِ، فلَمْ يقُوموا، فلمَّا رأى ذلك قامَ، فلمَّا قامَ قامَ مَن قامَ، وقعَدَ ثلاثةُ نفَرٍ، فجاءَ النبيُّ صلى الله عليه وسلم لِيدخُلَ فإذا القومُ جلوسٌ، ثمَّ إنَّهم قاموا، فانطلَقْتُ فجِئْتُ فأخبَرْتُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم أنَّهم قد انطلَقوا، فجاءَ حتى دخَلَ، فذهَبْتُ أدخُلُ، فألقى الحِجابَ بَيْني وبَيْنه؛ فأنزَلَ اللهُ: {يَٰٓأَيُّهَا اْلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَدْخُلُواْ بُيُوتَ اْلنَّبِيِّ} [الأحزاب: 53] الآيةَ». أخرجه البخاري (٤٧٩١).

* سورةُ (الأحزاب):

سُمِّيت سورةُ (الأحزاب) بذلك؛ لأنَّ فيها ذِكْرَ أحزابِ المشركين مِن قُرَيشٍ وغطَفانَ وبعضِ العرب، الذين تَحزَّبوا واجتمعوا لغَزْوِ المسلمين بالمدينة، فردَّ اللهُ كيدهم في غزوة (الأحزاب) المعروفة.

اشتمَلتْ سورةُ (الأحزاب) على الموضوعات الآتية:

1. أمرُ النبيِّ صلى الله عليه وسلم بتقوى الله، والتوكل عليه (١-٣).

2. تصحيح مفاهيمَ اجتماعية خاطئة (٤-٥).

3. وَلاية النبيِّ صلى الله عليه وسلم العامة، وأخذُ اللهِ الميثاقَ من النبيِّين عليهم السلام (٦-٨).

4. قصة غزوة (الأحزاب) (٩-٢٠).

5. الرسول صلى الله عليه وسلم هو الأُسوة الحسنة، وأصحابه نجومٌ يُهتدى بها (٢١-٢٤).

6. نتيجة المعركة، وغدر اليهود (٢٥-٢٧).

7. النبي مُحمَّد صلى الله عليه وسلم (٢٨-٥٩) .

8. مع زوجاته رضوان الله عليهم (٢٨-٣٤) .

9. المساواة بين الرجال والنساء في التكليف والجزاء (٣٥).

10. قصته صلى الله عليه وسلم مع زينبَ رضي الله عنها (٣٦-٣٩).

11. خاتمُ النبيِّين وبعض صفاته (٤٠-٤٨) .

12. خصائصه في أحكام الزواج (٤٩-٥٢).

13. آداب دخول بيته، والأمر بالحِجاب (٥٣-٥٥).

14. مكانتُه، وحرمة إيذائه (٥٦- ٥٨).

15. حِجاب زوجاته والمرأة المسلمة (٥٩).

16. جزاء المنافقين والكفار (٦٠-٦٨).

17. توجيهاتٌ وعِظات للمؤمنين (٦٩-٧١).

18. عظمة تكليف الإنسان، وحملُه الأمانة (٧٢-٧٣).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (6 /68).

حثَّتْ سورةُ (الأحزاب) على حُسْنِ الظنِّ بالله، والتوكُّلِ عليه؛ فالله هو صاحبُ الحِكْمة والقوَّة والقُدْرة، وهو المتصرِّفُ في الكون، يَعلَم ما يصلحُ للخلائق، ويُدبِّر لهم أحسَنَ تدبير؛ فيُعلِي شأنَ من يشاء، ويَخفِض شأنَ من يشاء.

وتسميتُها بـ(الأحزاب) أوضحُ دليلٍ على ذلك؛ بتأمُّل القصة التي أشارت إليها، ودلَّتْ عليها.

ينظر: "مصاعد النظر للإشراف على مقاصد السور" للبقاعي (2 /370).