ترجمة سورة الجن

محمد جوناگڑھی - Urdu translation

ترجمة معاني سورة الجن باللغة الأردية من كتاب محمد جوناگڑھی - Urdu translation.

جنّ


(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کہہ دیں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (قرآن) سنا اور کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے

جو راه راست کے طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ہم اس پر ایمان ﻻ چکے (اب) ہم ہرگز کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہ بنائیں گے

اور بیشک ہمارے رب کی شان بڑی بلند ہے نہ اس نے کسی کو (اپنی) بیوی بنایا ہے نہ بیٹا

اور یہ کہ ہم میں ایک بیوقوف اللہ کے بارے میں خلاف حق باتیں کہا کرتا تھا

اور ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ ناممکن ہے کہ انسانوں اور جنات اللہ پر جھوٹی باتیں لگائیں

بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناه طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سرکشی میں اور بڑھ گئے

اور (انسانوں) نے بھی تم جنوں کی طرح گمان کر لیا تھا کہ اللہ کسی کو نہ بھیجے گا (یا کسی کو دوباره زنده نہ کرے گا)

اور ہم نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا تو اسے سخت چوکیداروں اور سخت شعلوں سے پر پایا

اس سے پہلے ہم باتیں سننے کے لیے آسمان میں جگہ جگہ بیٹھ جایا کرتے تھے۔ اب جو بھی کان لگاتا ہے وه ایک شعلے کو اپنی تاک میں پاتا ہے

ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ کسی برائی کا اراده کیا گیا ہے یا ان کے رب کا اراده ان کے ساتھ بھلائی کا ہے

اور یہ کہ (بیشک) بعض تو ہم میں نیکو کار ہیں اور بعض اس کے برعکس بھی ہیں، ہم مختلف طریقوں سے بٹے ہوئے ہیں

اور ہم نے سمجھ لیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کو زمین میں ہرگز عاجز نہیں کرسکتے اور نہ ہم بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں

ہم تو ہدایت کی بات سنتے ہی اس پر ایمان ﻻئے چکے اور جو بھی اپنے رب پر ایمان ﻻئے گا اسے نہ کسی نقصان کا اندیشہ ہے نہ ﻇلم وستم کا

ہاں ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض بےانصاف ہیں پس جو فرماں بردار ہوگئے انہوں نے تو راه راست کا قصد کیا

اور جو ﻇالم ہیں وه جہنم کا ایندھن بن گئے

اور (اے نبی یہ بھی کہہ دو) کہ اگر لوگ راه راست پر سیدھے رہتے تو یقیناً ہم انہیں بہت وافر پانی پلاتے

تاکہ ہم اس میں انہیں آزمالیں، اور جو شخص اپنے پروردگار کے ذکر سے منھ پھیر لے گا تو اللہ تعالیٰ اسے سخت عذاب میں مبتلا کردے گا

اور یہ کہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو

اور جب اللہ کا بنده اس کی عبادت کے لیے کھڑا ہوا تو قریب تھا کہ وه بھیڑ کی بھیڑ بن کر اس پر پل پڑیں

آپ کہہ دیجئے کہ میں تو صرف اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا

کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نقصان نفع کا اختیار نہیں

کہہ دیجئے کہ مجھے ہرگز کوئی اللہ سے بچا نہیں سکتا اور میں ہرگز اس کے سوا کوئی جائے پناه بھی پا نہیں سکتا

البتہ (میرا کام) اللہ کی بات اور اس کے پیغامات (لوگوں کو) پہنچا دینا ہے، (اب) جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نہ مانے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں ایسے لوگ ہمیشہ رہیں گے

(ان کی آنکھ نہ کھلے گی) یہاں تک کہ اسے دیکھ لیں جس کا ان کو وعده دیا جاتا ہے پس عنقریب جان لیں گے کہ کس کا مددگار کمزور اور کس کی جماعت کم ہے

کہہ دیجئے کہ مجھے معلوم نہیں کہ جس کا وعده تم سے کیا جاتا ہے وه قریب ہے یا میرا رب اس کے لیے دور کی مدت مقرر کرے گا

وه غیب کا جاننے واﻻ ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا

سوائے اس پیغمبر کے جسے وه پسند کرلے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کردیتا ہے

تاکہ ان کے اپنے رب کے پیغام پہنچا دینے کا علم ہو جائے اللہ تعالیٰ نے ان کے آس پاس (کی تمام چیزوں) کا احاطہ کر رکھا ہے اور ہر چیز کی گنتی شمار کر رکھا ہے
سورة الجن
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورة (الجِنِّ) من السُّوَر المكية، نزلت بعد سورة (الأعراف)، وقد جاءت على ذِكْرِ شرفِ النبي صلى الله عليه وسلم، وتحقُّقِ الكرامة له بعد أن رفَضه أهلُ الأرض وآذَوْهُ، فليَّنَ اللهُ له قلوبَ عالَم الجِنِّ؛ فاستمَعوا لهذا القرآن، وآمنوا به، وبرسالة مُحمَّد صلى الله عليه وسلم؛ لِما لهذا القرآن من عظمة وهداية وبيان واضح، والإنس أدعى أن يؤمنوا بهذا الكتابِ العظيم.

ترتيبها المصحفي
72
نوعها
مكية
ألفاظها
285
ترتيب نزولها
40
العد المدني الأول
28
العد المدني الأخير
28
العد البصري
28
العد الكوفي
28
العد الشامي
28

قوله تعالى: {قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اْسْتَمَعَ نَفَرٞ مِّنَ اْلْجِنِّ} [الجن: 1]:

عن عبدِ اللهِ بن عباسٍ رضي الله عنهما، قال: «انطلَقَ النبيُّ ﷺ في طائفةٍ مِن أصحابِه عامِدِينَ إلى سُوقِ عُكَاظَ، وقد حِيلَ بَيْنَ الشياطينِ وبَيْنَ خَبَرِ السماءِ، وأُرسِلتْ عليهم الشُّهُبُ، فرجَعتِ الشياطينُ إلى قومِهم، فقالوا: ما لكم؟ فقالوا: حِيلَ بَيْننا وبَيْنَ خَبَرِ السماءِ، وأُرسِلتْ علينا الشُّهُبُ، قالوا: ما حالَ بَيْنَكم وبَيْنَ خَبَرِ السماءِ إلا شيءٌ حدَثَ، فاضرِبوا مشارقَ الأرضِ ومغاربَها، فانظُروا ما هذا الذي حالَ بَيْنَكم وبَيْنَ خَبَرِ السماءِ، فانصرَفَ أولئك الذين توجَّهوا نحوَ تِهامةَ إلى النبيِّ ﷺ، وهو بنَخْلةَ، عامِدِينَ إلى سُوقِ عُكَاظَ، وهو يُصلِّي بأصحابِه صلاةَ الفجرِ، فلمَّا سَمِعوا القرآنَ استمَعوا له، فقالوا: هذا واللهِ الذي حالَ بَيْنَكم وبَيْنَ خَبَرِ السماءِ، فهنالك حينَ رجَعوا إلى قومِهم، وقالوا: يا قومَنا: {إِنَّا سَمِعْنَا قُرْءَانًا عَجَبٗا ١ يَهْدِيٓ إِلَى اْلرُّشْدِ فَـَٔامَنَّا بِهِۦۖ وَلَن نُّشْرِكَ بِرَبِّنَآ أَحَدٗا} [الجن: 1-2]؛ فأنزَلَ اللهُ على نبيِّه ﷺ: {قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اْسْتَمَعَ نَفَرٞ مِّنَ اْلْجِنِّ} [الجن: 1]، وإنَّما أُوحِيَ إليه قولُ الجِنِّ». أخرجه البخاري (٧٧٣).

* سورة (الجِنِّ):

سُمِّيت سورة (الجِنِّ) بهذا الاسم؛ لاشتمالها على أحوالهم وأقوالهم، وعلاقتهم بالإنس.

* سورة {قُلْ أُوحِيَ}:

سُمِّيت بذلك؛ لافتتاحها بهذا اللفظِ.

1. الافتتاحية (١-٢).

2. الجِنُّ ورحلة الإيمان (٣-١٥).

3. من صفاتِ الرَّكْبِ، والداعي إليه (١٦-٢٥).

4. الخاتمة (٢٦-٢٨).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (8 /397).

يقول البِقاعيُّ: «مقصودها: إظهارُ شرفِ هذا النبي صلى الله عليه وسلم؛ حيث لُيِّنَ له قلوبُ الجِنِّ والإنس وغيرِهم، فصار مالكًا لقلوب المُجانِس وغيره؛ وذلك لعظمة هذا القرآنِ، ولُطْفِ ما له من عظيم الشأن.
هذا، والزمانُ في آخره، وزمان لُبْثِه في قومه دون العُشْرِ من زمن قوم نوح عليهما السلام، أولِ نبيٍّ بعثه اللهُ إلى المخالفين، وما آمن معه من قومه إلا قليلٌ.
وعلى ذلك دلَّت تسميتُها بـ(الجِنِّ)، وبـ {قُلْ أُوحِيَ}». "مصاعد النظر للإشراف على مقاصد السور" للبقاعي (3 /127).