ترجمة سورة الأنفال

محمد جوناگڑھی - Urdu translation

ترجمة معاني سورة الأنفال باللغة الأردية من كتاب محمد جوناگڑھی - Urdu translation.

انفال


یہ لوگ آپ سے غنیمتو ں کا حکم دریافت کرتے ہیں، آپ فرما دیجئے! کہ یہ غنیمتیں اللہ کی ہیں اور رسول کی ہیں، سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایمان والے ہو

بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتیں ہیں تو وه آیتیں ان کے ایمان کو اور زیاده کردیتی ہیں اور وه لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں

جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وه اس میں سے خرچ کرتے ہیں

سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں ان کے لیے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور مغفرت اور عزت کی روزی ہے

جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کے گھر سے حق کے ساتھ آپ کو روانہ کیا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو گراں سمجھتی تھی

وه اس حق کے بارے میں، اس کے بعد کہ اس کا ﻇہور ہوگیا تھا آپ سے اس طرح جھگڑ رہے تھے کہ گویا کوئی ان کو موت کی طرف ہانکے لیے جاتا ہے اور وه دیکھ رہے ہیں

اور تم لوگ اس وقت کو یاد کرو! جب کہ اللہ تم سے ان دو جماعتوں میں سے ایک کا وعده کرتا تھا کہ وه تمہارے ہاتھ آجائے گی اور تم اس تمنا میں تھے کہ غیر مسلح جماعت تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اپنے احکام سے حق کا حق ہونا ﺛابت کردے اور ان کافروں کی جڑ کاٹ دے

تاکہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ﺛابت کردے گو یہ مجرم لوگ ناپسند ہی کریں

اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتار چلے آئیں گے

اور اللہ تعالیٰ نے یہ امداد محض اس لیے کی کہ بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دلوں کو قرار ہو جائے اور مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو کہ زبردست حکمت واﻻ ہے

اس وقت کو یاد کرو جب کہ اللہ تم پر اونگھ طاری کر رہا تھا اپنی طرف سے چین دینے کے لیے اور تم پر آسمان سے پانی برسا رہا تھا کہ اس پانی کے ذریعہ سے تم کو پاک کر دے اور تم سے شیطانی وسوسہ کو دفع کر دے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کر دے اور تمہارے پاؤں جما دے

اس وقت کو یاد کرو جب کہ آپ کا رب فرشتوں کو حکم دیتا تھا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں سو تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ میں ابھی کفار کے قلوب میں رعب ڈالے دیتا ہوں، سو تم گردنوں پر مارو اور ان کے پور پور کو مارو

یہ اس بات کی سزا ہے کہ انہوں نے اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کی۔ اور جو اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے سو بےشک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے واﻻ ہے

سو یہ سزا چکھو اور جان رکھو کہ کافروں کے لیے جہنم کا عذاب مقرر ہی ہے

اے ایمان والو! جب تم کافروں سے دو بدو مقابل ہو جاؤ تو ان سے پشت مت پھیرنا

اور جو شخص ان سے اس موقع پر پشت پھیرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لیے پینترا بدلتا ہو یا جو (اپنی) جماعت کی طرف پناه لینے آتا ہو وه مستثنیٰ ہے۔ باقی اور جو ایسا کرے گا وه اللہ کے غضب میں آجائے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا وه بہت ہی بری جگہ ہے

سو تم نے انہیں قتل نہیں کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو قتل کیا۔ اور آپ نے خاک کی مٹھی نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے وه پھینکی اور تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ان کی محنت کا خوب عوض دے بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب سننے واﻻ خوب جاننے واﻻ ہے

(ایک بات تو) یہ ہوئی اور (دوسری بات یہ ہے) اللہ تعالیٰ کو کافروں کی تدبیر کو کمزور کرنا تھا

اگر تم لوگ فیصلہ چاہتے ہو تو وه فیصلہ تمہارے سامنے آموجود ہوا اور اگر باز آجاؤ تو یہ تمہارے لیے نہایت خوب ہے اور اگر تم پھر وہی کام کرو گے تو ہم بھی پھر وہی کام کریں گے اور تمہاری جمعیت تمہارے ذرا بھی کام نہ آئے گی گو کتنی زیاده ہو اور واقعی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے ساتھ ہے

اے ایمان والو! اللہ کا اور اس کے رسول کا کہنا مانو اور اس (کا کہنا ماننے) سے روگردانی مت کرو سنتے جانتے ہوئے

اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہونا جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم نے سن لیا حاﻻنکہ وه سنتے (سناتے کچھ) نہیں

بےشک بدترین خلائق اللہ تعالیٰ کے نزدیک وه لوگ ہیں جو بہرے ہیں گونگے ہیں جو کہ (ذرا) نہیں سمجھتے

اور اگر اللہ تعالیٰ ان میں کوئی خوبی دیکھتا تو ان کو سننے کی توفیق دے دیتا اور اگر ان کو اب سنا دے تو ضرور روگردانی کریں گے بے رخی کرتے ہوئے

اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ، جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ آدمی کے اور اس کے قلب کے درمیان آڑ بن جایا کرتا ہے اور بلاشبہ تم سب کو اللہ ہی کے پاس جمع ہونا ہے

اور تم ایسے وبال سے بچو! کہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے واﻻ ہے

اور اس حالت کو یاد کرو! جب کہ تم زمین میں قلیل تھے، کمزور شمار کئے جاتے تھے۔ اس اندیشہ میں رہتے تھے کہ تم کو لوگ نوچ کھسوٹ نہ لیں، سو اللہ نے تم کو رہنے کی جگہ دی اور تم کو اپنی نصرت سے قوت دی اور تم کو نفیس نفیس چیزیں عطا فرمائیں تاکہ تم شکر کرو

اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول (کے حقوق) میں جانتے ہوئے خیانت مت کرو اور اپنی قابل حفاﻇت چیزوں میں خیانت مت کرو

اور تم اس بات کو جان رکھو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اوﻻد ایک امتحان کی چیز ہے۔ اور اس بات کو بھی جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس بڑا بھاری اجر ہے

اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک فیصلہ کی چیز دے گا اور تم سے تمہارے گناه دور کر دے گا اور تم کو بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل واﻻ ہے

اور اس واقعہ کا بھی ذکر کیجئے! جب کہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر لیں، یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو خارج وطن کر دیں اور وه تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے زیاده مستحکم تدبیر واﻻ اللہ ہے

اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا، اگر ہم چاہیں تو اس کے برابر ہم بھی کہہ دیں، یہ تو کچھ بھی نہیں صرف بے سند باتیں ہیں جو پہلوں سے منقول چلی آرہی ہیں

اور جب کہ ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کر دے

اور اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وه استغفار بھی کرتے ہوں

اور ان میں کیا بات ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ سزا نہ دے حاﻻنکہ وه لوگ مسجد حرام سے روکتے ہیں، جب کہ وه لوگ اس مسجد کے متولی نہیں۔ اس کے متولی تو سوا متقیوں کے اور اشخاص نہیں، لیکن ان میں اکثر لوگ علم نہیں رکھتے

اور ان کی نماز کعبہ کے پاس صرف یہ تھی سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا۔ سو اپنے کفر کے سبب اس عذاب کا مزه چکھو

بلاشک یہ کافر لوگ اپنے مالوں کو اس لئے خرچ کر رہے ہیں کہ اللہ کی راه سے روکیں سو یہ لوگ تو اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہی رہیں گے، پھر وه مال ان کے حق میں باعﺚ حسرت ہو جائیں گے۔ پھر مغلوب ہو جائیں گے اور کافر لوگوں کو دوزخ کی طرف جمع کیا جائے گا

تاکہ اللہ تعالیٰ ناپاک کو پاک سے الگ کر دے اور ناپاکوں کو ایک دوسرے سے ملا دے، پس ان سب کو اکھٹا ڈھیر کر دے پھر ان سب کو جہنم میں ڈال دے۔ ایسے لوگ پورے خسارے میں ہیں

آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے! کہ اگر یہ لوگ باز آجائیں تو ان کے سارے گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں سب معاف کر دیئے جائیں گے اور اگر اپنی وہی عادت رکھیں گے تو (کفار) سابقین کے حق میں قانون نافذ ہو چکا ہے

اور تم ان سے اس حد تک لڑو کہ ان میں فساد عقیده نہ رہے۔ اور دین اللہ ہی کا ہو جائے پھر اگر یہ باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ ان اعمال کو خوب دیکھتا ہے

اور اگر روگردانی کریں تو یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارا کار ساز ہے وه بہت اچھا کار ساز ہے اور بہت اچھا مدد گار ہے

جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت داروں کا اور یتیموں اور مسکینوں کا اور مسافروں کا، اگر تم اللہ پر ایمان ﻻئے ہو اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن اتارا ہے، جو دن حق وباطل کی جدائی کا تھا جس دن دو فوجیں بھڑ گئی تھیں۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے

جب کہ تم پاس والے کنارے پر تھے اور وه دور والے کنارے پر تھے اور قافلہ تم سے نیچے تھا۔ اگر تم آپس میں وعدے کرتے تو یقیناً تم وقت معین پر پہنچنے میں مختلف ہو جاتے۔ لیکن اللہ کو تو ایک کام کر ہی ڈالنا تھا جو مقرر ہو چکا تھا تاکہ جو ہلاک ہو، دلیل پر (یعنی یقین جان کر) ہلاک ہو اور جو زنده رہے، وه بھی دلیل پر (حق پہچان کر) زنده رہے۔ بیشک اللہ بہت سننے واﻻ خوب جاننے واﻻ ہے

جب کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے تیرے خواب میں ان کی تعداد کم دکھائی، اگر ان کی زیادتی دکھاتا تو تم بزدل ہو جاتے اور اس کام کے بارے میں آپس میں اختلاف کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے بچا لیا، وه دلوں کے بھیدوں سے خوب آگاه ہے

جبکہ اس نے بوقت ملاقات انہیں تمہاری نگاہوں میں بہت کم دکھائے اور تمہیں ان کی نگاہوں میں کم دکھائے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کام کو انجام تک پہنچا دے جو کرنا ہی تھا اور سب کام اللہ ہی کی طرف پھیرے جاتے ہیں

اے ایمان والو! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ﺛابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کو یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو

اور اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرتے رہو، آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر و سہارا رکھو، یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

ان لوگوں جیسے نہ بنو جو اتراتے ہوئے اور لوگوں میں خود نمائی کرتے ہوئے اپنے گھروں سے چلے اور اللہ کی راه سے روکتے تھے، جو کچھ وه کر رہے ہیں اللہ اسے گھیر لینے واﻻ ہے

جبکہ ان کے اعمال کو شیطان انہیں زینت دار دکھا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ لوگوں میں سے کوئی بھی آج تم پر غالب نہیں آسکتا، میں خود بھی تمہارا حمایتی ہوں لیکن جب دونوں جماعتیں نمودار ہوئیں تو اپنی ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ گیا اور کہنے لگا میں تم سے بری ہوں۔ میں وه دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب واﻻ ہے

جبکہ منافق کہہ رہے تھے اور وه بھی جن کے دلوں میں روگ تھا کہ انہیں تو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال دیا ہے جو بھی اللہ پر بھروسہ کرے اللہ تعالیٰ بلا شک وشبہ غلبے واﻻ اور حکمت واﻻ ہے

کاش کہ تو دیکھتا جب کہ فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں ان کے منھ پر اور سرینوں پر مار مارتے ہیں (اور کہتے ہیں) تم جلنے کا عذاب چکھو

یہ بسبب ان کاموں کے جو تمہارے ہاتھوں نے پہلے ہی بھیج رکھا ہے بیشک اللہ اپنے بندوں پر ﻇلم کرنے واﻻ نہیں

مثل فرعونیوں کے حال کے اور ان سے اگلوں کے، کہ انہوں نے اللہ کی آیتوں سے کفر کیا پس اللہ نے ان کے گناہوں کے باعﺚ انہیں پکڑ لیا۔ اللہ تعالیٰ یقیناً قوت واﻻ اور سخت عذاب واﻻ ہے

یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کر پھر بدل دے جب تک کہ وه خود اپنی اس حالت کو نہ بدل دیں جو کہ ان کی اپنی تھی اور یہ کہ اللہ سننے واﻻ جاننے واﻻ ہے

مثل حالت فرعونیوں کے اور ان سے پہلے کے لوگوں کے کہ انہوں نے اپنے رب کی باتیں جھٹلائیں۔ پس ان کے گناہوں کے باعﺚ ہم نے انہیں برباد کیا اور فرعونیوں کو ڈبو دیا۔ یہ سارے ﻇالم تھے

تمام جانداروں سے بدتر، اللہ کے نزدیک وه ہیں جو کفر کریں، پھر وه ایمان نہ ﻻئیں

جن سے آپ نے عہد وپیمان کر لیا پھر بھی وه اپنے عہد وپیمان کو ہر مرتبہ توڑ دیتے ہیں اور بالکل پرہیز نہیں کرتے

پس جب کبھی تو لڑائی میں ان پر غالب آجائے انہیں ایسی مار مار کہ ان کے پچھلے بھی بھاگ کھڑے ہوں، ہو سکتا ہے کہ وه عبرت حاصل کریں

اور اگر تجھے کسی قوم کی خیانت کا ڈر ہو تو برابری کی حالت میں ان کا عہدنامہ توڑ دے، اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا

کافر یہ خیال نہ کریں کہ وه بھاگ نکلے۔ یقیناً وه عاجز نہیں کر سکتے

تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زده رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی، جنہیں تم نہیں جانتے، اللہ انہیں خوب جان رہا ہے جو کچھ بھی اللہ کی راه میں صرف کرو گے وه تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا

اگر وه صلح کی طرف جھکیں تو تو بھی صلح کی طرف جھک جا اور اللہ پر بھروسہ رکھ، یقیناً وه بہت سننے جاننے واﻻ ہے

اگر وه تجھ سے دغا بازی کرنا چاہیں گے تو اللہ تجھے کافی ہے، اسی نے اپنی مدد سے اور مومنوں سے تیری تائید کی ہے

ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اسی نے ڈالی ہے۔ زمین میں جو کچھ ہے تو اگر سارا کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا ہے تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے وه غالب حکمتوں واﻻ ہے

اے نبی! تجھے اللہ کافی ہے اور ان مومنوں کو جو تیری پیروی کر رہے ہیں

اے نبی! ایمان والوں کو جہاد کا شوق دلاؤ اگر تم میں بیس بھی صبر کرنے والے ہوں گے، تو دو سو پر غالب رہیں گے۔ اور اگر تم میں ایک سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب رہیں گے اس واسطے کہ وه بے سمجھ لوگ ہیں

اچھا اب اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرتاہے، وه خوب جانتا ہے کہ تم میں ناتوانی ہے، پس اگر تم میں سے ایک سو صبر کرنے والے ہوں گے تو وه دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہوں گے تو وه اللہ کے حکم سے دو ہزار پرغالب رہیں گے، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

نبی کے ہاتھ میں قیدی نہیں چاہییں جب تک کہ ملک میں اچھی خونریزی کی جنگ نہ ہو جائے۔ تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا اراده آخرت کا ہے اور اللہ زور آور باحکمت ہے

اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کے بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی

پس جو کچھ حلال اور پاکیزه غنیمت تم نے حاصل کی ہے، خوب کھاؤ پیو اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ غفور ورحیم ہے

اے نبی! اپنے ہاتھ تلے کے قیدیوں سے کہہ دو کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں نیک نیتی دیکھے گا تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں دے گا اور پھر گناه بھی معاف فرمائے گا اور اللہ بخشنے واﻻ مہربان ہے ہی

اور اگر وه تجھ سے خیانت کا خیال کریں گے تو یہ تو اس سے پہلے خود اللہ کی خیانت کر چکے ہیں آخر اس نے انہیں گرفتار کرا دیا، اور اللہ علم وحکمت واﻻ ہے

جو لوگ ایمان ﻻئے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راه میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے ان کو پناه دی اور مدد کی، یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اور جو ایمان تو ﻻئے ہیں لیکن ہجرت نہیں کی تمہارے لئے ان کی کچھ بھی رفاقت نہیں جب تک کہ وه ہجرت نہ کریں۔ ہاں اگر وه تم سے دین کے بارے میں مدد طلب کریں تو تم پر مدد کرنا ضروری ہے، سوائے ان لوگوں کے کہ تم میں اور ان میں عہد وپیمان ہے، تم جو کچھ کر رہے ہو اللہ خوب دیکھتا ہے

کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ملک میں فتنہ ہوگا اور زبردست فساد ہو جائے گا

جو لوگ ایمان ﻻئے اور ہجرت کی اور اللہ کی راه میں جہاد کیا اور جنہوں نے پناه دی اور مدد پہنچائی، یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی

اور جو لوگ اس کے بعد ایمان ﻻئے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا۔ پس یہ لوگ بھی تم میں سے ہی ہیں اور رشتے ناتے والے ان میں سے بعض بعض سے زیاده نزدیک ہیں اللہ کے حکم میں، بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے واﻻ ہے
سورة الأنفال
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

اعتنَتْ سورةُ (الأنفال) ببيانِ أحكامِ الحرب والغنائمِ والأَسْرى؛ ولذا سُمِّيتْ بهذا الاسمِ، وقد نزَلتْ هذه السورةُ في المدينةِ بعد غزوة (بَدْرٍ)؛ لذا تعلَّقتْ أسبابُ نزولها بهذه الغزوة، وقد أبانت السورةُ عن قوانين النَّصر المادية: كتجهيز العَتاد، والمعنوية: كوَحْدة الصَّف، وأوضَحتْ حُكْمَ الفِرار من المعركة، وقتالِ الكفار، وما يَتبَع ذلك من أحكامٍ ربانيَّة، كما أصَّلتْ - بشكل رئيسٍ - لقواعدِ عَلاقة المجتمع المسلم بغيره.

ترتيبها المصحفي
8
نوعها
مدنية
ألفاظها
1243
ترتيب نزولها
88
العد المدني الأول
76
العد المدني الأخير
67
العد البصري
76
العد الكوفي
75
العد الشامي
77

تعلَّقتْ سورةُ (الأنفال) بوقائعَ كثيرةٍ؛ لذا صحَّ في أسبابِ نزولها الكثيرُ؛ من ذلك:

* ما جاء عن سعيدِ بن جُبَيرٍ رحمه الله، قال: «قلتُ لابنِ عباسٍ: سورةُ التَّوبة؟ قال: التَّوبةُ هي الفاضحةُ، ما زالت تَنزِلُ: ﴿وَمِنْهُمْ﴾ ﴿وَمِنْهُمْ﴾ حتى ظَنُّوا أنَّها لن تُبقِيَ أحدًا منهم إلا ذُكِرَ فيها، قال: قلتُ: سورةُ الأنفالِ؟ قال: نزَلتْ في بَدْرٍ، قال: قلتُ: سورةُ الحشرِ؟ قال: نزَلتْ في بني النَّضِيرِ». أخرجه مسلم (٣٠٣١).

* قوله تعالى: ﴿يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ اْلْأَنفَالِۖ قُلِ اْلْأَنفَالُ لِلَّهِ وَاْلرَّسُولِۖ فَاْتَّقُواْ اْللَّهَ وَأَصْلِحُواْ ذَاتَ بَيْنِكُمْۖ وَأَطِيعُواْ اْللَّهَ وَرَسُولَهُۥٓ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾ [الأنفال: 1]:

عن سعدِ بن أبي وقَّاصٍ رضي الله عنه، قال: «لمَّا كان يومُ بدرٍ جئتُ بسيفٍ، فقلتُ: يا رسولَ اللهِ، إنَّ اللهَ قد شَفَى صدري مِن المشركين - أو نحوَ هذا -، هَبْ لي هذا السيفَ، فقال: «هذا ليس لي، ولا لك»، فقلتُ: عسى أن يُعطَى هذا مَن لا يُبلِي بلائي، فجاءني الرسولُ، فقال: «إنَّك سألْتَني وليس لي، وإنَّه قد صار لي، وهو لك»، قال: فنزَلتْ: ﴿يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ اْلْأَنفَالِۖ﴾ الآيةَ». أخرجه الترمذي (٣٠٧٩).

وعن عُبَادةَ بن الصامتِ رضي الله عنه، قال: «خرَجْنا مع النبيِّ ﷺ، فشَهِدتُّ معه بدرًا، فالتقى الناسُ، فهزَمَ اللهُ العدوَّ، فانطلَقتْ طائفةٌ في آثارِهم يَهزِمون ويقتُلون، وأكَبَّتْ طائفةٌ على العسكرِ يَحْوُونه ويَجمَعونه، وأحدَقتْ طائفةٌ برسولِ الله ﷺ؛ لا يُصِيبُ العدوُّ منه غِرَّةً، حتى إذا كان الليلُ وفاءَ الناسُ بعضُهم إلى بعضٍ، قال الذين جمَعوا الغنائمَ: نحن حوَيْناها وجمَعْناها؛ فليس لأحدٍ فيها نصيبٌ! وقال الذين خرَجوا في طلبِ العدوِّ: لستم بأحَقَّ بها منَّا؛ نحن نفَيْنا عنها العدوَّ وهزَمْناهم! وقال الذين أحدَقوا برسولِ اللهِ ﷺ: لستم بأحَقَّ بها منَّا؛ نحن أحدَقْنا برسولِ اللهِ ﷺ، وخِفْنا أن يُصِيبَ العدوُّ منه غِرَّةً، واشتغَلْنا به! فنزَلتْ: ﴿يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ اْلْأَنفَالِۖ قُلِ اْلْأَنفَالُ لِلَّهِ وَاْلرَّسُولِۖ فَاْتَّقُواْ اْللَّهَ وَأَصْلِحُواْ ذَاتَ بَيْنِكُمْۖ﴾ [الأنفال: 1]، فقسَمَها رسولُ اللهِ ﷺ على فُوَاقٍ بين المسلمين، قال: وكان رسولُ اللهِ ﷺ إذا أغارَ في أرضِ العدوِّ نفَّلَ الرُّبُعَ، وإذا أقبَلَ راجعًا وكَلَّ الناسُ نفَّلَ الثُّلُثَ، وكان يَكرَهُ الأنفالَ، ويقولُ: «لِيَرُدَّ قويُّ المؤمنين على ضعيفِهم»». أخرجه أحمد (٢٢٧٦٢).

* قوله تعالى: ﴿إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاْسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٖ مِّنَ اْلْمَلَٰٓئِكَةِ مُرْدِفِينَ﴾ [الأنفال: 9]:

عن عبدِ اللهِ بن عباسٍ رضي الله عنهما، قال: «حدَّثني عُمَرُ بن الخطَّابِ، قال: لمَّا كان يومُ بَدْرٍ نظَرَ رسولُ اللهِ ﷺ إلى المشركين وهم ألفٌ، وأصحابُه ثلاثُمائةٍ وتسعةَ عشَرَ رجُلًا، فاستقبَلَ نبيُّ اللهِ ﷺ القِبْلةَ، ثم مَدَّ يدَيهِ، فجعَلَ يَهتِفُ برَبِّهِ: اللهمَّ أنجِزْ لي ما وعَدتَّني، اللهمَّ آتِ ما وعَدتَّني، اللهمَّ إن تَهلِكْ هذه العصابةُ مِن أهلِ الإسلامِ لا تُعبَدْ في الأرضِ، فما زالَ يَهتِفُ برَبِّهِ، مادًّا يدَيهِ، مستقبِلَ القِبْلةِ، حتى سقَطَ رداؤُهُ عن مَنكِبَيهِ، فأتاه أبو بكرٍ، فأخَذَ رداءَهُ، فألقاه على مَنكِبَيهِ، ثم التزَمَه مِن ورائِه، وقال: يا نبيَّ اللهِ، كفَاك مُناشَدتُك ربَّك؛ فإنَّه سيُنجِزُ لك ما وعَدَك؛ فأنزَلَ اللهُ عز وجل: ﴿إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاْسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٖ مِّنَ اْلْمَلَٰٓئِكَةِ مُرْدِفِينَ﴾ [الأنفال: 9]، فأمَدَّه اللهُ بالملائكةِ». أخرجه مسلم (١٧٦٣).

* قوله تعالى: ﴿وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٖ دُبُرَهُۥٓ﴾ [الأنفال: 16]:

عن أبي سعيدٍ رضي الله عنه، قال: «نزَلتْ في يومِ بدرٍ: ﴿وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٖ دُبُرَهُۥٓ﴾ [الأنفال: 16]». أخرجه أبو داود (٢٦٤٨).

* قوله تعالى: {وَمَا كَانَ اْللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْۚ وَمَا كَانَ اْللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ٣٣ وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اْللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ اْلْمَسْجِدِ اْلْحَرَامِ} [الأنفال: 33، 34]:

عن أنسِ بن مالكٍ رضي الله عنه، قال: «قال أبو جهلٍ: اللهمَّ إن كان هذا هو الحقَّ مِن عندِك، فأمطِرْ علينا حجارةً مِن السماءِ، أو ائتِنا بعذابٍ أليمٍ؛ فنزَلتْ: {وَمَا كَانَ اْللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْۚ وَمَا كَانَ اْللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ٣٣ وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اْللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ اْلْمَسْجِدِ اْلْحَرَامِ} الآيةَ». أخرجه البخاري (٤٦٤٩).

سُمِّيتْ سورةُ (الأنفال) بذلك؛ لأنها بدأت بالحديثِ عن (الأنفال).

كما سُمِّيتْ أيضًا بسورة (بَدْرٍ): لِما صحَّ عن سعيدِ بن جُبَيرٍ رحمه الله، قال: «قلتُ لابنِ عباسٍ: سورةُ الأنفالِ؟ قال: تلك سورةُ بَدْرٍ». أخرجه مسلم (٣٠٣١).

ووجهُ التسمية بذلك ظاهرٌ؛ لأنها نزَلتْ بعد غزوةِ (بَدْرٍ)، وتحدَّثتْ بشكلٍ رئيس عن هذه الغزوةِ.

* أنَّ من أخَذها عُدَّ حَبْرًا:

فعن عائشةَ رضي الله عنها، عن رسولِ الله ﷺ، قال: «مَن أخَذَ السَّبْعَ الأُوَلَ مِن القرآنِ، فهو حَبْرٌ». أخرجه أحمد (24575).

* أنها تقابِلُ التَّوْراةَ مع بقيَّةِ السُّوَر الطِّوال:

فعن واثلةَ بن الأسقَعِ رضي الله عنه، قال: قال رسولُ الله ﷺ: «أُعطِيتُ مكانَ التَّوْراةِ السَّبْعَ الطِّوالَ». أخرجه أحمد (17023).

جاءت موضوعاتُ سورةِ (الأنفال) كما يلي:

* قوانينُ ربَّانية {وَمَا ‌اْلنَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اْللَّهِۚ}:

1. الأنفالُ وصفاتُ المؤمنين الصادقين (١ -٤).

2. غزوة (بدر) (٥-١٤).

3. حرمةُ الفرار من المعركة، ومِنَّة الله بالنصر والتأييد (١٥-١٩).

4. طاعة الله ورسوله، والنهيُ عن خيانة الأمانة (٢٠-٢٩).

5. نماذجُ من عداوة المشركين للمؤمنين (٣٠-٤٠).

6. توزيعُ غنائمِ (بدر) مع التذكير بما دار في المعركة (٤١-٤٤).

* قوانينُ مادية {وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اْسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٖ}:

7. من شروط النصر، وأسباب الهزيمة (٤٥-٤٩).

8. نماذجُ من تعذيب الله للكافرين (٥٠-٥٤).

9. قواعد السلم والحرب والمعاهَدات الدولية (٥٥-٦٣).

10. وَحْدة الصف، والتخفيف في القتال (٦٤-٦٦).

11. العتاب في أُسارى (بدر) (٦٧- ٧١).

12. قواعدُ في علاقة المجتمع الإسلامي بغيره (٧٢-٧٥).

ينظر: "التفسير الموضوعي للقرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (3 /131).

افتُتِحت السُّورةُ بمقصدٍ عظيم؛ وهو بيانُ أحكامِ (الأنفال)، والأمرُ بتقوى الله وطاعتِه وطاعة رسوله، في ذلك وغيره، وأمرُ المسلمين بإصلاح ذاتِ بينهم، وأن ذلك من مقوِّمات معنى الإيمان الكامل، واشتمَلتْ على تذكيرِ النبي ﷺ بنعمةِ الله عليه إذ أنجاه من مكرِ المشركين به بمكَّةَ، وخلَّصه من عنادِهم. ثمَّ قصَدتْ دعوةَ المشركين للانتهاء عن مناوأةِ الإسلام، وإيذانِهم بالقتال، والتحذيرِ من المنافقين، وضربِ المَثَل بالأُمم الماضية التي عانَدتْ رُسُلَ الله ولم يشكروا نعمةَ الله، كما قصَدتْ بيانَ أحكام العهد بين المسلمين والكفار، وما يَترتَّب على نقضِهم العهدَ، ومتى يحسُنُ السلمُ.

ينظر: "التحرير والتنوير" لابن عاشور (9 /248).