ترجمة سورة العلق

الترجمة الأردية

ترجمة معاني سورة العلق باللغة الأردية من كتاب الترجمة الأردية.
من تأليف: محمد إبراهيم جوناكري .

پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا.*
____________________
* یہ سب سے پہلی وحی ہے جو نبی (صلى الله عليه وسلم) پر اس وقت آئی جب آپ (صلى الله عليه وسلم) غار حرا میں مصروف عبادت تھے۔ فرشتے نے آکر کہا، پڑھ، آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا، میں تو پڑھا ہوا ہی نہیں ہوں، فرشتے نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو پکڑ کر زور سے بھینچا، اور کہا پڑھ، آپ (صلى الله عليه وسلم) نے پھر وہی جواب دیا۔ اس طرح تین مرتبہ اس نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو بھینچا۔ ( تفصیل کے لئے دیکھئے صحیح بخاری، بدء الوحی، مسلم، الایمان، باب بدء الوحی ) اقْرَأْ جو تیری طرف وحی کی جاتی ہے وہ پڑھ۔ خَلَقَ، جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔
جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا.*
____________________
* مخلوقات میں سے بطور خاص انسان کی پیدائش کا ذکر فرمایا جس سے اس کا شرف واضح ہے۔
تو پڑھتا ره تیرا رب بڑے کرم واﻻ ہے.*
____________________
* یہ بطور تاکید فرمایا اور اس میں بڑے بلیغ انداز سے اس اعتذار کا بھی ازالہ فرما دیا، جو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے پیش کیا کہ میں تو قاری ہی نہیں۔ اللہ نے فرمایا، اللہ بہت کرم والا ہے پڑھ، یعنی انسانوں کی کوتاہیوں سے درگزر کرنا اس کا وصف خاص ہے۔
جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا.*
____________________
* قَلَمٌ کے معنی ہیں قطع کرنا، تراشنا، قلم بھی پہلے زمانے میں تراش کر ہی بنائے جاتے تھے، اس لئے آلۂ کتابت کو قلم سے تعبیر کیا۔ کچھ علم تو انسان کے ذہن میں ہوتا ہے، کچھ کا اظہار زبان کے ذریعے سے ہوتا ہے اور کچھ انسان قلم سے کاغذ پر لکھ لیتا ہے۔ ذہن وحافظہ میں جو ہوتا ہے، وہ انسان کے ساتھ ہی چلا جاتا ہے۔ زبان سے جس کا اظہار کرتا ہے، وہ بھی محفوظ نہیں رہتا۔ البتہ قلم سے لکھا ہوا، اگر وہ کسی وجہ سے ضائع نہ ہو تو ہمیشہ محفوظ رہتا ہے، اسی قلم کی بدولت تمام علوم، پچھلے لوگوں کی تاریخیں اور اسلاف کا علمی ذخیرہ محفوظ ہے۔ حتیٰ کہ آسمانی کتابوں کی حفاظت کا بھی ذریعہ ہے۔ اس سے قلم کی اہمیت محتاج وضاحت نہیں رہتی۔ اسی لئے اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اس کو تمام مخلوقات کی تقدیر لکھنے کا حکم دیا۔
جس نے انسان کو وه سکھایا جسے وه نہیں جانتا تھا.
سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے.
اس لئے کہ وه اپنے آپ کو بے پروا (یا تونگر) سمجھتا ہے.
یقیناً لوٹنا تیرے رب کی طرف ہے.
(بھلا) اسے بھی تو نے دیکھا جو بندے کو روکتا ہے.
جبکہ وه بنده نماز ادا کرتا ہے.*
____________________
* مفسرین کہتے ہیں کہ روکنے والے سے مراد ابوجہل ہے جو اسلام کا شدید دشمن تھا۔ عبدًا سے مراد نبی (صلى الله عليه وسلم) ہیں۔
بھلا بتلا تو اگر وه ہدایت پر ہو.*
____________________
* یعنی جس کو یہ نماز پڑھنے سے روک رہا ہے، وہ ہدایت پرہو۔
یا پرہیز گاری کا حکم دیتا ہو.*
____________________
* یعنی اخلاص، توحید اور عمل صالح کی تعلیم، جس سے جہنم کی آگ سے انسان بچ سکتا ہے۔ تو کیا یہ چیزیں ( نماز پڑھنا اور تقویٰ کی تعلیم دینا ) ایسی ہیں کہ ان کی مخالفت کی جائے اور اس پر اس کو دھمکیاں دیں جائیں؟
بھلا دیکھو تو اگر یہ جھٹلاتا ہو اور منھ پھیرتا ہو تو.*
____________________
* یعنی یہ ابوجہل اللہ کے پیغمبر کو جھٹلاتا ہو اور ایمان سے اعراض کرتا ہو أَرَأَيْتَ بمعنی أَخْبِرْنِي ( مجھے بتلاؤ ) ہے۔
کیا اس نے نہیں جانا کہ اللہ تعالیٰ اسے خوب دیکھ رہا ہے.*
____________________
* مطلب یہ ہے کہ یہ شخص جو مذکورہ حرکتیں کر رہا ہے کیا نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھ رہا ہے، وہ اس کی اس کو جزا دے گا۔ یعنی یہ «أَلَمْ تَعْلَمْ» مذکورہ شرطوں «إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَى، أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى» کی جزا ہے۔
یقیناً اگر یہ باز نہ رہا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے.*
____________________
* یعنی نبی (صلى الله عليه وسلم) کی مخالفت اور دشمنی سے اور آپ (صلى الله عليه وسلم) کو نماز پڑھنے سے جو روکتا ہے، اس سے باز نہ آیا لَنَسْفَعَنَّ کے معنی ہیں لَنَأْخُذَنَّ تو ہم اسے اس کی پیشانی سے پکڑ کر گھسیٹیں گے۔ حدیث میں آتا ہے ابوجہل نے کہا تھا کہ اگر محمد (صلى الله عليه وسلم) کعبے کے پاس نماز پڑھنے سے باز نہ آیا تو میں اس کی گردن پر پاؤں رکھ دوں گا۔ (یعنی اسے روندوں گا اور یوں ذلیل کروں گا) نبی (صلى الله عليه وسلم) کو یہ بات پہنچی تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو فرشتے اسے پکڑ لیتے۔ (صحيح البخاري، تفسير سورة العلق)۔
ایسی پیشانی جو جھوٹی خطا کار ہے.*
____________________
* پیشانی کی یہ صفات بطور مجاز ہیں، جھوٹی ہے اپنی بات میں، خطاکار ہے اپنے فعل میں۔
یہ اپنی مجلس والوں کو بلالے.
ہم بھی (دوزخ کے) پیادوں کو بلالیں گے.*
____________________
* حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل گزرا تو کہا اے محمد! (صلى الله عليه وسلم) میں نے تجھے نماز پڑھنے سے منع نہیں کیا تھا؟ اور آپ (صلى الله عليه وسلم) سے سخت دھمکی آمیز باتیں کیں، آپ (صلى الله عليه وسلم) نے کڑا جواب دیا تو کہنے لگا اے محمد! (صلى الله عليه وسلم) تو مجھے کس چیز سے ڈراتا ہے؟ اللہ کی قسم، اس وادی میں سب سے زیادہ میرے حمایتی اور مجلس والے ہیں، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) ما فرماتے ہیں، اگر وہ اپنے حمایتیوں کو بلاتا تو اسی وقت ملائکہ عذاب اسے اسے پکڑ لیتے۔( ترمذی، تفسیر سورۂ اقر﯋ مسند احمد، 1/ 329 وتفسیر ابن جریر) اور صحیح مسلم کے الفاظ ہیں کہ اس نے آگے بڑھ کر آپ (صلى الله عليه وسلم) کی گردن پر پیر رکھنے کا ارادہ کیا کہ ایک دم الٹے پاؤں پیچھے ہٹا اور اپنے ہاتھوں سے اپنا بچاؤ کرنے لگا، اس سے کہا گیا، کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ میرے اور محمد(صلى الله عليه وسلم) کے درمیان آگ کی خندق، ہولناک منظر اور بہت سارے پر ہیں۔ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا، اگر یہ میرے قریب ہوتا تو فرشتے اس کی بوٹی بوٹی نوچ لیتے۔ (كتاب صفة القيامة، باب إن الإنسان ليطغى) الزَّبَانِيَة، داروغے اور پولیس۔ یعنی طاقتور لشکر، جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔
خبردار! اس کا کہنا ہرگز نہ ماننا اور سجده کر اور قریب ہو جا.*
سورة العلق
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورة (العَلَق) من السُّوَر المكية، وهي أولُ سورةٍ نزلت على النبي صلى الله عليه وسلم، وقد بدأت بأمرِ النبي صلى الله عليه وسلم بالقراءة؛ ليُعلِّمَه اللهُ عز وجل هذا الكتابَ، وقد جاءت على ذِكْرِ عظمة الله، وتذكيرِ الإنسان بخَلْقِ الله له من عدمٍ، وخُتمت بتأييد الله للنبي صلى الله عليه وسلم، ونصرِه له، وكفايتِه أعداءَه.

ترتيبها المصحفي
96
نوعها
مكية
ألفاظها
72
ترتيب نزولها
1
العد المدني الأول
20
العد المدني الأخير
20
العد البصري
19
العد الكوفي
19
العد الشامي
18

* قوله تعالى: {كَلَّآ إِنَّ اْلْإِنسَٰنَ لَيَطْغَىٰٓ ٦ أَن رَّءَاهُ اْسْتَغْنَىٰٓ ٧ إِنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ اْلرُّجْعَىٰٓ ٨ أَرَءَيْتَ اْلَّذِي يَنْهَىٰ ٩ عَبْدًا إِذَا صَلَّىٰٓ ١٠ أَرَءَيْتَ إِن كَانَ عَلَى اْلْهُدَىٰٓ ١١ أَوْ أَمَرَ بِاْلتَّقْوَىٰٓ ١٢ أَرَءَيْتَ إِن كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰٓ ١٣ أَلَمْ يَعْلَم بِأَنَّ اْللَّهَ يَرَىٰ ١٤ كَلَّا لَئِن لَّمْ يَنتَهِ لَنَسْفَعَۢا بِاْلنَّاصِيَةِ ١٥ نَاصِيَةٖ كَٰذِبَةٍ خَاطِئَةٖ ١٦ فَلْيَدْعُ نَادِيَهُۥ ١٧ سَنَدْعُ اْلزَّبَانِيَةَ ١٨ كَلَّا لَا تُطِعْهُ} [العلق: 13-19]:

عن أبي هُرَيرةَ رضي الله عنه، قال: «قال أبو جهلٍ: هل يُعفِّرُ مُحمَّدٌ وجهَه بَيْنَ أظهُرِكم؟ قال: فقيل: نَعم، فقال: واللَّاتِ والعُزَّى، لَئِنْ رأَيْتُه يَفعَلُ ذلك، لَأَطأنَّ على رقَبتِه، أو لَأُعفِّرَنَّ وجهَه في التُّرابِ، قال: فأتى رسولَ اللهِ ﷺ وهو يُصلِّي، زعَمَ لِيطأَ على رقَبتِه، قال: فما فَجِئَهم منه إلا وهو يَنكِصُ على عَقِبَيهِ، ويَتَّقي بيدَيهِ، قال: فقيل له: ما لكَ؟ فقال: إنَّ بَيْني وبَيْنَه لَخَنْدقًا مِن نارٍ، وهَوْلًا، وأجنحةً، فقال رسولُ اللهِ ﷺ: «لو دنَا منِّي، لَاختطَفَتْهُ الملائكةُ عضوًا عضوًا»، قال: فأنزَلَ اللهُ عز وجل - لا ندري في حديثِ أبي هُرَيرةَ، أو شيءٌ بلَغَه -: {كَلَّآ إِنَّ اْلْإِنسَٰنَ لَيَطْغَىٰٓ ٦ أَن رَّءَاهُ اْسْتَغْنَىٰٓ ٧ إِنَّ إِلَىٰ رَبِّكَ اْلرُّجْعَىٰٓ ٨}؛ يَعني: أبا جهلٍ، {أَرَءَيْتَ اْلَّذِي يَنْهَىٰ ٩ عَبْدًا إِذَا صَلَّىٰٓ ١٠ أَرَءَيْتَ إِن كَانَ عَلَى اْلْهُدَىٰٓ ١١ أَوْ أَمَرَ بِاْلتَّقْوَىٰٓ ١٢ أَرَءَيْتَ إِن كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰٓ ١٣ أَلَمْ يَعْلَم بِأَنَّ اْللَّهَ يَرَىٰ ١٤ كَلَّا لَئِن لَّمْ يَنتَهِ لَنَسْفَعَۢا بِاْلنَّاصِيَةِ ١٥ نَاصِيَةٖ كَٰذِبَةٍ خَاطِئَةٖ ١٦ فَلْيَدْعُ نَادِيَهُۥ ١٧ سَنَدْعُ اْلزَّبَانِيَةَ ١٨ كَلَّا لَا تُطِعْهُ} [العلق: 13-19]». زاد عُبَيدُ اللهِ في حديثِه قال: «وأمَرَه بما أمَرَه به». وزادَ ابنُ عبدِ الأعلى: «{فَلْيَدْعُ نَادِيَهُۥ}؛ يَعني: قومَهُ». أخرجه مسلم (٢٧٩٧).

* سورة (العَلَق):

سُمِّيت سورة (العَلَق) بهذا الاسم؛ لوقوع لفظ (العَلَق) في أولها؛ قال تعالى: {اْقْرَأْ بِاْسْمِ رَبِّكَ اْلَّذِي خَلَقَ ١ خَلَقَ اْلْإِنسَٰنَ مِنْ عَلَقٍ} [العلق: 1-2].

* وكذلك تُسمَّى بسورة {اْقْرَأْ}، و{اْقْرَأْ بِاْسْمِ رَبِّكَ}؛ للسبب نفسه.

1. الخَلْقُ والتعليم مُوجِب للشكر (١-٥).

2. انحرافُ صِنْفٍ من البشر عن الشكر (٦-٨).

3. صورة من صُوَر طغيان البشر (٩-١٩).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (9 /253).

يقول ابنُ عاشور عن مقاصدها: «تلقينُ مُحمَّدٍ صلى الله عليه وسلم الكلامَ القرآني وتلاوتَه؛ إذ كان لا يَعرِف التلاوةَ من قبل.
والإيماء إلى أنَّ عِلْمَه بذلك مُيسَّر؛ لأن اللهَ الذي ألهم البشرَ العلمَ بالكتابة قادرٌ على تعليم من يشاءُ ابتداءً.
وإيماء إلى أن أمَّتَه ستَصِير إلى معرفة القراءة والكتابة والعلم.
وتوجيهه إلى النظر في خلقِ الله الموجودات، وخاصةً خَلْقَه الإنسانَ خَلْقًا عجيبًا مستخرَجًا من علَقةٍ، فذلك مبدأ النظر.
وتهديد مَن كذَّب النبيَّ صلى الله عليه وسلم وتعرَّضَ ليصُدَّه عن الصلاة والدعوة إلى الهدى والتقوى.
وإعلام النبي صلى الله عليه وسلم أن اللهَ عالمٌ بأمرِ مَن يناوُونه، وأنه قامِعُهم، وناصرُ رسولِه.
وتثبيت الرسول على ما جاءه من الحقِّ، والصلاة، والتقرب إلى الله.
وألا يعبأ بقوةِ أعدائه؛ لأن قوَّةَ الله تقهرهم». "التحرير والتنوير" لابن عاشور (30 /434).