ترجمة سورة التغابن

محمد جوناگڑھی - Urdu translation

ترجمة معاني سورة التغابن باللغة الأردية من كتاب محمد جوناگڑھی - Urdu translation.

تغابن


(تمام چیزیں) جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں اسی کی سلطنت ہے اور اسی کی تعریف ہے، اور وه ہر ہر چیز پر قادر ہے

اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے سو تم میں سے بعضے تو کافر ہیں اور بعض ایمان والے ہیں، اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ خوب دیکھ رہا ہے

اسی نے آسمانوں کو اور زمین کو عدل وحکمت سے پیدا کیا، اسی نے تمہاری صورتیں بنائیں اور بہت اچھی بنائیں اور اسی کی طرف لوٹنا ہے

وه آسمان وزمین کی ہر ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور جو کچھ تم چھپاؤ اور جو ﻇاہر کرو وه (سب کو) جانتا ہے۔ اللہ تو سینوں کی باتوں تک کو جاننے واﻻ ہے

کیا تمہارے پاس اس سے پہلے کے کافروں کی خبر نہیں پہنچی؟ جنہوں نے اپنے اعمال کا وبال چکھ لیا اور جن کے لیے دردناک عذاب ہے

یہ اس لیے کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح دﻻئل لے کر آئے تو انہوں نے کہہ دیا کہ کیا انسان ہماری رہنمائی کرے گا؟ پس انکار کر دیا اور منھ پھیر لیا اور اللہ نے بھی بےنیازی کی، اور اللہ تو ہے ہی بہت بےنیاز سب خوبیوں واﻻ

ان کافروں نے خیال کیا ہے کہ دوباره زنده نہ کیے جائیں گے۔ آپ کہہ دیجئے کہ کیوں نہیں اللہ کی قسم! تم ضرور دوباره اٹھائے جاؤ گے پھر جو تم نے کیا ہے اس کی خبر دیئے جاؤ گے اور اللہ پر یہ بالکل ہی آسان ہے

سو تم اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ایمان ﻻؤ اور اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل پر باخبر ہے

جس دن تم سب کو اس جمع ہونے کے دن جمع کرے گا وہی دن ہے ہار جیت کا اور جو شخص اللہ پر ایمان ﻻکر نیک عمل کرے اللہ اس سے اس کی برائیاں دور کر دے گا اور اسے جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وه ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے

اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی (سب) جہنمی ہیں (جو) جہنم میں ہمیشہ رہیں گے، وه بہت برا ٹھکانا ہے

کوئی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی، جو اللہ پر ایمان ﻻئے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے واﻻ ہے

(لوگو) اللہ کا کہنا مانو اور رسول کا کہنا مانو۔ پس اگر تم اعراض کرو تو ہمارے رسول کے ذمہ صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے

اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور مومنوں کو اللہ ہی پر توکل رکھنا چاہئے

اے ایمان والو! تمہاری بعض بیویاں اور بعض بچے تمہارے دشمن ہیں پس ان سے ہوشیار رہنا اور اگر تم معاف کر دو اور درگزر کر جاؤ اور بخش دو تو اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے

تمہارے مال اور اوﻻد تو سراسر تمہاری آزمائش ہیں۔ اور بہت بڑا اجر اللہ کے پاس ہے

پس جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو اور سنتے اور مانتے چلے جاؤ اور اللہ کی راه میں خیرات کرتے رہو جو تمہارے لیے بہتر ہے اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے محفوظ رکھا جائے وہی کامیاب ہے

اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو گے (یعنی اس کی راه میں خرچ کرو گے) تو وه اسے تمہارے لیے بڑھاتا جائے گا اور تمہارے گناه بھی معاف فرما دے گا۔ اللہ بڑا قدر دان بڑا بردبار ہے

وه پوشیده اور ﻇاہر کا جاننے واﻻ ہے زبردست حکمت واﻻ (ہے)
سورة التغابن
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورة (التغابُنِ) من السُّوَر المدنية، وقد افتُتحت بتعظيم الله عزَّ وجلَّ، وجاءت مُحذِّرةً الناسَ من يوم القيامة وهولِه؛ للعودة إلى طريق النجاح؛ وهو صراط الله المستقيمُ الذي بيَّنه صلى الله عليه وسلم، و(التغابُنُ): اسمٌ من أسماء يوم القيامة.

ترتيبها المصحفي
64
نوعها
مدنية
ألفاظها
242
ترتيب نزولها
108
العد المدني الأول
18
العد المدني الأخير
18
العد البصري
18
العد الكوفي
18
العد الشامي
18

* قوله تعالى: {يَٰٓأَيُّهَا اْلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِنَّ مِنْ أَزْوَٰجِكُمْ وَأَوْلَٰدِكُمْ عَدُوّٗا لَّكُمْ فَاْحْذَرُوهُمْۚ} [التغابن: 14]:

سأل رجُلٌ ابنَ عباسٍ عن هذه الآيةِ، فقال رضي الله عنه: «هؤلاء رجالٌ أسلَموا مِن أهلِ مكَّةَ، وأرادوا أن يأتُوا النبيَّ صلى الله عليه وسلم، فأبى أزواجُهم وأولادُهم أن يَدَعوهم أن يأتوا رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فلمَّا أتَوْا رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم رأَوْا أصحابَهم قد فَقِهوا في الدِّينِ، هَمُّوا أن يُعاقِبوهم؛ فأنزَلَ اللهُ: {يَٰٓأَيُّهَا اْلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِنَّ مِنْ أَزْوَٰجِكُمْ وَأَوْلَٰدِكُمْ عَدُوّٗا لَّكُمْ فَاْحْذَرُوهُمْۚ} [التغابن: 14] الآيةَ». أخرجه الترمذي (٣٣١٧).

* سورة (التغابُنِ):

سُمِّيت سورة (التغابن) بهذا الاسم؛ لوقوع لفظ (التغابن) فيها؛ قال تعالى: {يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ اْلْجَمْعِۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ اْلتَّغَابُنِۗ وَمَن يُؤْمِنۢ بِاْللَّهِ وَيَعْمَلْ صَٰلِحٗا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّـَٔاتِهِۦ وَيُدْخِلْهُ جَنَّٰتٖ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا اْلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدٗاۚ ذَٰلِكَ اْلْفَوْزُ اْلْعَظِيمُ} [التغابن: 9].

يقول القُرْطُبيُّ: «وسُمِّي يومُ القيامة يومَ التغابن؛ لأنه غبَنَ فيه أهلُ الجنَّةِ أهلَ النار؛ أي: إن أهلَ الجنَّة أخذوا الجنَّةَ، وأخذ أهلُ النارِ النارَ، على طريقِ المبادَلة؛ فوقَع الغَبْنُ لأجلِ مبادَلتِهم الخيرَ بالشرِّ، والجيِّدَ بالرديءِ، والنعيمَ بالعذاب.

يقال: غبَنْتُ فلانًا: إذا بايَعْتَه أو شارَيْتَه، فكان النقصُ عليه، والغلَبةُ لك، وكذا أهلُ الجنَّة وأهلُ النار». "تفسير القرطبي" (18 /136).

1. الإيمان بالله تعالى (١-٤).

2. المَغْبُونون (٥-٧).

3. التغابُنُ (٨-١٠).

4. على طريق النجاح (١١-١٣).

5. فتنة الأهل والمال (١٤-١٨).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (8 /191).

اشتملت سورةُ (التغابُنِ) على تنزيهِ الله عز وجل من النقائص، واتصافِه بالعدل والكمال المطلق، وأتت السورة بالمبالغة في تحذيرِ الناس من يوم القيامة الذي يَفصِل اللهُ فيه بين الخلائق؛ لإحقاق الحق؛ ففيه يُقتصُّ لكل مخلوق، وتُرَدُّ كلُّ الحقوق، و(التغابن): اسمٌ من أسماء يوم القيامة.

ينظر: "مصاعد النظر للإشراف على مقاصد السور" للبقاعي (3 /90)، "التحرير والتنوير" لابن عاشور (28 /259).