ترجمة سورة النّور

محمد جوناگڑھی - Urdu translation

ترجمة معاني سورة النّور باللغة الأردية من كتاب محمد جوناگڑھی - Urdu translation.

نور


یہ ہے وه سورت جو ہم نے نازل فرمائی ہے اور مقرر کردی ہے اور جس میں ہم نے کھلی آیتیں (احکام) اتارے ہیں تاکہ تم یاد رکھو

زناکار عورت و مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔ ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیئے، اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو۔ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیئے

زانی مرد بجز زانیہ یا مشرکہ عورت کے اور سے نکاح نہیں کرتا اور زناکار عورت بھی بجز زانی یا مشرک مرد کے اور سے نکاح نہیں کرتی اور ایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا

جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواه نہ پیش کرسکیں تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں

ہاں جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کرلیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ اور مہربانی کرنے واﻻ ہے

جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لائیں اور ان کا کوئی گواه بجز خود ان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ﺛبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وه سچوں میں سے ہیں

اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وه جھوٹوں میں سے ہو

اور اس عورت سے سزا اس طرح دور ہوسکتی ہے کہ وه چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یقیناً اس کا مرد جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے

اور پانچویں دفعہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہو اگر اس کا خاوند سچوں میں سے ہو

اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر نہ ہوتا (تو تم پر مشقت اترتی) اور اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے واﻻ باحکمت ہے

جو لوگ یہ بہت بڑا بہتان باندھ ﻻئے ہیں یہ بھی تم میں سے ہی ایک گروه ہے۔ تم اسے اپنے لئے برا نہ سمجھو، بلکہ یہ تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔ ہاں ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناه ہے جتنا اس نے کمایا ہے اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصے کو سرانجام دیا ہے اس کے لئے عذاب بھی بہت ہی بڑا ہے

اسے سنتے ہی مومن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے

وه اس پر چار گواه کیوں نہ ﻻئے؟ اور جب گواه نہیں ﻻئے تو یہ بہتان باز لوگ یقیناً اللہ کے نزدیک محض جھوٹے ہیں

اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر دنیا اور آخرت میں نہ ہوتا تو یقیناً تم نے جس بات کے چرچے شروع کر رکھے تھے اس بارے میں تمہیں بہت بڑا عذاب پہنچتا

جب کہ تم اسے اپنی زبانوں سے نقل در نقل کرنے لگے اور اپنے منھ سے وه بات نکالنے لگے جس کی تمہیں مطلق خبر نہ تھی، گو تم اسے ہلکی بات سمجھتے رہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک وه بہت بڑی بات تھی

تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منھ سے نکالنی بھی ﻻئق نہیں۔ یا اللہ! تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے اور تہمت ہے

اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی بھی ایسا کام نہ کرنا اگر تم سچے مومن ہو

اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے اپنی آیتیں بیان فرما رہا ہے، اور اللہ تعالیٰ علم و حکمت واﻻ ہے

جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزومند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے

اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ بڑی شفقت رکھنے واﻻ مہربان ہے۔ (تو تم پر عذاب اتر جاتا)

ایمان والو! شیطان کے قدم بقدم نہ چلو۔ جو شخص شیطانی قدموں کی پیروی کرے تو وه تو بےحیائی اور برے کاموں کا ہی حکم کرے گا۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالی جسے پاک کرنا چاہے، کر دیتا ہے۔ اور اللہ سب سننے واﻻ سب جاننے واﻻ ہے

تم میں سے جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھا لینی چاہیئے، بلکہ معاف کردینا اور درگزر کرلینا چاہیئے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف فرما دے؟ اللہ قصوروں کو معاف فرمانے واﻻ مہربان ہے

جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی باایمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وه دنیا وآخرت میں ملعون ہیں اور ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے

جب کہ ان کے مقابلے میں ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے

اس دن اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا بدلہ حق و انصاف کے ساتھ دے گا اور وه جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے (اور وہی) ﻇاہر کرنے واﻻ ہے

خبیﺚ عورتیں خبیﺚ مردوں کے ﻻئق ہیں اور خبیﺚ مرد خبیﺚ عورتوں کے ﻻئق ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے ﻻئق ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے ﻻئق ہیں۔ ایسے پاک لوگوں کے متعلق جو کچھ بکواس (بہتان باز) کر رہے ہیں وه ان سے بالکل بری ہیں، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت والی روزی

اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو، یہی تمہارے لئے سراسر بہتر ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو

اگر وہاں تمہیں کوئی بھی نہ مل سکے تو پھر اجازت ملے بغیر اندر نہ جاؤ۔ اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو تم لوٹ ہی جاؤ، یہی بات تمہارے لئے پاکیزه ہے، جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے

ہاں غیر آباد گھروں میں جہاں تمہارا کوئی فائده یا اسباب ہو، جانے میں تم پر کوئی گناه نہیں۔ تم جو کچھ بھی ﻇاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے

مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاﻇت رکھیں۔ یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے

مسلمان عورتوں سے کہو کہ وه بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ﻇاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ﻇاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں، اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ﻇاہر نہ کریں، سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں۔ اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیده زینت معلوم ہوجائے، اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ

تم میں سے جو مرد عورت بےنکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی۔ اگر وه مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کشادگی واﻻ اور علم واﻻ ہے

اور ان لوگوں کو پاک دامن رہنا چاہیئے جو اپنا نکاح کرنے کا مقدور نہیں رکھتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے مالدار بنا دے، تمہارے غلاموں میں جو کوئی کچھ تمہیں دے کر آزادی کی تحریر کرانی چاہے تو تم ایسی تحریر انہیں کردیا کرو اگر تم کو ان میں کوئی بھلائی نظر آتی ہو۔ اور اللہ نے جو مال تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے انہیں بھی دو، تمہاری جو لونڈیاں پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدے کی غرض سے بدکاری پر مجبور نہ کرو اور جو انہیں مجبور کردے تو اللہ تعالیٰ ان پر جبر کے بعد بخشش دینے واﻻ اور مہربانی کرنے واﻻ ہے

ہم نے تمہاری طرف کھلی اور روشن آیتیں اتار دی ہیں اور ان لوگوں کی کہاوتیں جو تم سے پہلے گزرچکے ہیں اور پرہیزگاروں کے لئے نصیحت

اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا، اس کے نور کی مثال مثل ایک طاق کے ہے جس میں چراغ ہو اور چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو اور شیشہ مثل چمکتے ہوئے روشن ستارے کے ہو وه چراغ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہو جو درخت نہ مشرقی ہے نہ مغربی خود وه تیل قریب ہے کہ آپ ہی روشنی دینے لگے اگرچہ اسے آگ نہ بھی چھوئے، نور پر نور ہے، اللہ تعالیٰ اپنے نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے جسے چاہے، لوگوں (کے سمجھانے) کو یہ مثالیں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کے حال سے بخوبی واقف ہے

ان گھروں میں جن کے بلند کرنے، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہاں صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں

ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی

اس ارادے سے کہ اللہ انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلے دے بلکہ اپنے فضل سے اور کچھ زیادتی عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے بےشمار روزیاں دیتا ہے

اور کافروں کے اعمال مثل اس چمکتی ہوئی ریت کے ہیں جو چٹیل میدان میں ہو جسے پیاسا شخص دور سے پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا، ہاں اللہ کو اپنے پاس پاتا ہے جو اس کا حساب پورا پورا چکا دیتا ہے۔ اللہ بہت جلد حساب کردینے واﻻ ہے

یا مثل ان اندھیروں کے ہے جو نہایت گہرے سمندر کی تہہ میں ہوں جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانﭗ رکھا ہو، پھر اوپر سے بادل چھائے ہوئے ہوں۔ الغرض اندھیریاں ہیں جو اوپر تلے پےدرپے ہیں۔ جب اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی قریب ہے کہ نہ دیکھ سکے، اور (بات یہ ہے کہ) جسے اللہ تعالیٰ ہی نور نہ دے اس کے پاس کوئی روشنی نہیں ہوتی

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آسمانوں اور زمین کی کل مخلوق اور پر پھیلائے اڑنے والے کل پرند اللہ کی تسبیح میں مشغول ہیں۔ ہر ایک کی نماز اور تسبیح اسے معلوم ہے، لوگ جو کچھ کریں اس سے اللہ بخوبی واقف ہے

زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ بادلوں کو چلاتا ہے، پھر انہیں ملاتا ہے پھر انہیں تہہ بہ تہہ کر دیتا ہے، پھر آپ دیکھتے ہیں کہ ان کے درمیان میں سے مینہ برستا ہے۔ وہی آسمان کی جانب سے اولوں کے پہاڑ میں سے اولے برساتا ہے، پھر جنہیں چاہے ان کے پاس انہیں برسائے اور جن سے چاہے ان سے انہیں ہٹا دے۔ بادل ہی سے نکلنے والی بجلی کی چمک ایسی ہوتی ہے کہ گویا اب آنکھوں کی روشنی لے چلی

اللہ تعالیٰ ہی دن اور رات کو ردوبدل کرتا رہتا ہے آنکھوں والوں کے لیے تو اس میں یقیناً بڑی بڑی عبرتیں ہیں

تمام کے تمام چلنے پھرنے والے جانداروں کو اللہ تعالیٰ ہی نے پانی سے پیدا کیا ہےان میں سے بعض تو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں، بعض دو پاؤں پر چلتے ہیں۔ بعض چار پاؤں پر چلتے ہیں، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ بےشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے

بلاشک و شبہ ہم نے روشن اور واضح آیتیں اتار دی ہیں اللہ تعالیٰ جسے چاہے سیدھی راه دکھا دیتا ہے

اور کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور رسول پر ایمان ﻻئے اور فرماں بردار ہوئے، پھر ان میں سے ایک فرقہ اس کے بعد بھی پھر جاتا ہے۔ یہ ایمان والے ہیں (ہی) نہیں

جب یہ اس بات کی طرف بلائے جاتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے جھگڑے چکا دے تو بھی ان کی ایک جماعت منھ موڑنے والی بن جاتی ہے

ہاں اگر ان ہی کو حق پہنچتا ہو تو مطیع وفرماں بردار ہو کر اس کی طرف چلے آتے ہیں

کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے؟ یا یہ شک وشبہ میں پڑے ہوئے ہیں؟ یا انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ان کی حق تلفی نہ کریں؟ بات یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی بڑے ﻇالم ہیں

ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کردے تو وه کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا۔ یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں

جو بھی اللہ تعالیٰ کی، اس کے رسول کی فرماں برداری کریں، خوف الٰہی رکھیں اور اس کے عذابوں سے ڈرتے رہیں، وہی نجات پانے والے ہیں

بڑی پختگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ آپ کا حکم ہوتے ہی نکل کھڑے ہوں گے۔ کہہ دیجیئے کہ بس قسمیں نہ کھاؤ (تمہاری) اطاعت (کی حقیقت) معلوم ہے۔ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے

کہہ دیجیئے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم مانو، رسول اللہ کی اطاعت کرو، پھر بھی اگر تم نے روگردانی کی تو رسول کے ذمے تو صرف وہی ہے جو اس پر ﻻزم کردیا گیا ہے اور تم پر اس کی جوابدہی ہے جو تم پر رکھا گیا ہے ہدایت تو تمہیں اسی وقت ملے گی جب رسول کی ماتحتی کرو۔ سنو رسول کے ذمے تو صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہے

تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان ﻻئے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وه پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف وخطر کو وه امن وامان سے بدل دے گا، وه میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وه یقیناً فاسق ہیں

نماز کی پابندی کرو، زکوٰة ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی فرمانبرداری میں لگے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے

یہ خیال آپ کبھی بھی نہ کرنا کہ منکر لوگ زمین میں (ادھر ادھر بھاگ کر) ہمیں ہرا دینے والے ہیں، ان کا اصلی ٹھکانا تو جہنم ہے جو یقیناً بہت ہی برا ٹھکانا ہے

ایمان والو! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں (اپنے آنے کی) تین وقتوں میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے۔ نماز فجر سے پہلے اور ﻇہر کے وقت جب کہ تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو اور عشا کی نماز کے بعد، یہ تینوں وقت تمہاری (خلوت) اور پرده کے ہیں۔ ان وقتوں کے ماسوا نہ تو تم پر کوئی گناه ہے نہ ان پر۔ تم سب آپس میں ایک دوسرے کے پاس بکثرت آنے جانے والے ہو (ہی)، اللہ اسی طرح کھول کھول کر اپنے احکام تم سے بیان فرما رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمت واﻻ ہے

اور تمہارے بچے (بھی) جب بلوغت کو پہنچ جائیں تو جس طرح ان کے اگلے لوگ اجازت مانگتے ہیں انہیں بھی اجازت مانگ کر آنا چاہیئے، اللہ تعالیٰ تم سے اسی طرح اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی علم وحکمت واﻻ ہے

بڑی بوڑھی عورتیں جنہیں نکاح کی امید (اور خواہش ہی) نہ رہی ہو وه اگر اپنے کپڑے اتار رکھیں تو ان پر کوئی گناه نہیں بشرطیکہ وه اپنا بناؤ سنگھار ﻇاہر کرنے والیاں نہ ہوں، تاہم اگر ان سے بھی احتیاط رکھیں تو ان کے لئے بہت افضل ہے، اور اللہ تعالیٰ سنتا جانتا ہے

اندھے پر، لنگڑے پر، بیمار پر اور خود تم پر (مطلقاً) کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے گھروں سے کھالو یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خاﻻؤں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کی کنجیوں کے تم مالک ہو یا اپنے دوستوں کے گھروں سے۔ تم پر اس میں بھی کوئی گناه نہیں کہ تم سب ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ یا الگ الگ پس جب تم گھروں میں جانے لگو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرلیا کرو دعائے خیر ہے جو بابرکت اور پاکیزه ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شده، یوں ہی اللہ تعالیٰ کھول کھول کر تم سے اپنے احکام بیان فرما رہا ہے تاکہ تم سمجھ لو

باایمان لوگ تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر یقین رکھتے ہیں اور جب ایسے معاملہ میں جس میں لوگوں کے جمع ہونے کی ضرورت ہوتی ہے نبی کے ساتھ ہوتے ہیں تو جب تک آپ سے اجازت نہ لیں کہیں نہیں جاتے۔ جو لوگ ایسے موقع پر آپ سے اجازت لے لیتے ہیں حقیقت میں یہی ہیں وه جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان ﻻچکے ہیں۔ پس جب ایسے لوگ آپ سے اپنے کسی کام کے لئے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا مانگیں، بےشک اللہ بخشنے واﻻ مہربان ہے

تم اللہ تعالیٰ کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ کرلو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے کو ہوتا ہے۔ تم میں سے انہیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں۔ سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے

آگاه ہو جاؤ کہ آسمان وزمین میں جو کچھ ہے سب اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ جس روش پر تم ہو وه اسے بخوبی جانتا ہے، اور جس دن یہ سب اس کی طرف لوٹائے جائیں گے اس دن ان کو ان کے کئے سے وه خبردار کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے واﻻ ہے
سورة النور
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورةُ (النُّور) مِن السُّوَر المدنيَّة، فرَضها الله عز وجل لِما تضمَّنته من أحكامٍ شرعية بالغة الأهمية؛ ففيها حدُّ الزِّنا، والأحكامُ المتعلقة به، وفيها ذِكْرُ حادثةِ (الإفك)، وتبرئةِ السيدة عائشة رضي الله عنها من هذه الكبيرةِ، ومِن عقوبتها، وقد نزَلتْ تبرئتُها من عندِ الله عز وجل من السماء، مبيِّنةً أن شَرَفَ النبي صلى الله عليه وسلم محفوظٌ بحفظِ الله له، وقد تَبِعَ ذِكْرَ هذه القصة مقاصدُ وأحكامٌ كثيرة؛ من فرضِ الحجاب، وغيرِ ذلك من الأحكام المتعلقة بالنساء؛ لذا كان السلفُ يحرصون على أن تتعلم نساؤُهم سورةَ (النُّور).

ترتيبها المصحفي
24
نوعها
مدنية
ألفاظها
1319
ترتيب نزولها
102
العد المدني الأول
62
العد المدني الأخير
62
العد البصري
64
العد الكوفي
64
العد الشامي
64

* قوله تعالى: {اْلزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةٗ وَاْلزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَآ إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٞۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى اْلْمُؤْمِنِينَ} [النور: 3]:

عن عبدِ اللهِ بن عمرٍو رضي الله عنهما، قال: «كان رجُلٌ يقالُ له: مَرْثَدُ بنُ أبي مَرْثَدٍ، وكان رجُلًا يَحمِلُ الأَسْرى مِن مكَّةَ حتى يأتيَ بهم المدينةَ، قال: وكانت امرأةٌ بَغِيٌّ بمكَّةَ يقالُ لها : عَنَاقٌ، وكانت صديقةً له، وإنَّه كان وعَدَ رجُلًا مِن أُسارى مكَّةَ يَحمِلُه، قال: فجِئْتُ حتى انتهَيْتُ إلى ظِلِّ حائطٍ مِن حوائطِ مكَّةَ في ليلةٍ مُقمِرةٍ، قال: فجاءت عَنَاقٌ، فأبصَرتْ سوادَ ظِلِّي بجَنْبِ الحائطِ، فلمَّا انتهَتْ إليَّ عرَفتْ، فقالت: مَرْثَدٌ؟ فقلتُ: مَرْثَدٌ، قالت: مرحبًا وأهلًا، هلُمَّ فَبِتْ عندنا الليلةَ، قلتُ: يا عَنَاقُ، حرَّمَ اللهُ الزِّنا! قالت: يا أهلَ الخِيامِ، هذا الرَّجُلُ يَحمِلُ أَسْراكم، قال: فتَبِعَني ثمانيةٌ، وسلَكْتُ الخَنْدَمةَ، فانتهَيْتُ إلى كهفٍ أو غارٍ، فدخَلْتُ، فجاؤوا حتى قاموا على رأسي، فبالُوا، فظَلَّ بَوْلُهم على رأسي، وأعماهم اللهُ عنِّي، قال: ثم رجَعوا، ورجَعْتُ إلى صاحبي، فحمَلْتُه، وكان رجُلًا ثقيلًا، حتى انتهَيْتُ إلى الإذخِرِ، ففكَكْتُ عنه كَبْلَه، فجعَلْتُ أحمِلُه ويُعْيِيني، حتى قَدِمْتُ المدينةَ، فأتَيْتُ رسولَ اللهِ ﷺ، فقلتُ: يا رسولَ اللهِ، أنكِحُ عَنَاقًا؟ مرَّتَينِ، فأمسَكَ رسولُ اللهِ ﷺ، فلَمْ يرُدَّ عليَّ شيئًا، حتى نزَلتِ: {اْلزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةٗ وَاْلزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَآ إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٞۚ} [النور: 3]، فقال رسولُ اللهِ ﷺ: «يا مَرْثَدُ، الزَّاني لا يَنكِحُ إلا زانيةً أو مشركةً، والزَّانيةُ لا يَنكِحُها إلا زانٍ أو مشركٌ؛ فلا تَنكِحْها»». سنن الترمذي (٣١٧٧).

* قوله تعالى: {وَاْلَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَٰجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَآءُ إِلَّآ أَنفُسُهُمْ فَشَهَٰدَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَٰدَٰتِۭ بِاْللَّهِ إِنَّهُۥ لَمِنَ اْلصَّٰدِقِينَ} [النور: 6]:

عن سهلِ بن سعدٍ السَّاعديِّ رضي الله عنه: «أنَّ عُوَيمِرًا أتى عاصمَ بنَ عَدِيٍّ، وكان سيِّدَ بني عَجْلانَ، فقال: كيف تقولون في رجُلٍ وجَدَ مع امرأتِه رجُلًا؛ أيقتُلُه فتقتُلونه أم كيف يَصنَعُ؟ سَلْ لي رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فأتى عاصمٌ النبيَّ صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسولَ اللهِ، فكَرِهَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم المسائلَ، فسأله عُوَيمِرٌ، فقال: إنَّ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم كَرِهَ المسائلَ وعابَها، قال عُوَيمِرٌ: واللهِ، لا أنتهي حتى أسألَ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فجاء عُوَيمِرٌ، فقال: يا رسولَ اللهِ، رجُلٌ وجَدَ مع امرأتِه رجُلًا؛ أيقتُلُه فتقتُلونه أم كيف يَصنَعُ؟ فقال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «قد أنزَلَ اللهُ القرآنَ فيك وفي صاحبتِك»، فأمَرَهما رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم بالمُلاعَنةِ بما سمَّى اللهُ في كتابِه، فلاعَنَها، ثم قال: يا رسولَ اللهِ، إن حبَسْتُها فقد ظلَمْتُها، فطلَّقَها، فكانت سُنَّةً لِمَن كان بعدهما في المُتلاعِنَينِ، ثم قال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «انظُروا فإن جاءت به أسحَمَ، أدعَجَ العينَينِ، عظيمَ الأَلْيَتَينِ، خَدَلَّجَ الساقَينِ؛ فلا أحسَبُ عُوَيمِرًا إلا قد صدَقَ عليها، وإن جاءت به أُحَيمِرَ كأنَّه وَحَرَةٌ، فلا أحسَبُ عُوَيمِرًا إلا قد كذَبَ عليها»، فجاءت به على النَّعْتِ الذي نعَتَ به رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم مِن تصديقِ عُوَيمِرٍ، فكان بعدُ يُنسَبُ إلى أُمِّهِ». أخرجه البخاري (٤٧٤٥).

عن سعيدِ بن جُبَيرٍ رحمه الله، قال: «سُئِلتُ عن المُتلاعِنَينِ في إمرةِ مُصعَبٍ: أيُفرَّقُ بينهما؟ قال: فما درَيْتُ ما أقولُ، فمضَيْتُ إلى منزلِ ابنِ عُمَرَ بمكَّةَ، فقلتُ للغلامِ: استأذِنْ لي، قال: إنَّه قائلٌ، فسَمِعَ صوتي، قال: ابنُ جُبَيرٍ؟ قلتُ: نَعم، قال: ادخُلْ؛ فواللهِ، ما جاء بك هذه الساعةَ إلا حاجةٌ، فدخَلْتُ، فإذا هو مُفترِشٌ بَرْذَعةً، مُتوسِّدٌ وِسادةً حَشْوُها لِيفٌ، قلتُ: أبا عبدِ الرَّحمنِ، المُتلاعِنانِ: أيُفرَّقُ بينهما؟ قال: سُبْحانَ اللهِ! نَعم، إنَّ أوَّلَ مَن سألَ عن ذلك فلانُ بنُ فلانٍ، قال: يا رسولَ اللهِ، أرأيتَ أنْ لو وجَدَ أحدُنا امرأتَه على فاحشةٍ، كيف يَصنَعُ: إن تكلَّمَ تكلَّمَ بأمرٍ عظيمٍ، وإن سكَتَ سكَتَ على مثلِ ذلك؟! قال: فسكَتَ النبيُّ صلى الله عليه وسلم فلم يُجِبْهُ، فلمَّا كان بعد ذلك أتاه، فقال: إنَّ الذي سألتُك عنه قد ابتُلِيتُ به؛ فأنزَلَ اللهُ عز وجل هؤلاء الآياتِ في سورةِ النُّورِ: {وَاْلَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَٰجَهُمْ} [النور: 6]، فتلاهُنَّ عليه، ووعَظَه، وذكَّرَه، وأخبَرَه أنَّ عذابَ الدُّنيا أهوَنُ مِن عذابِ الآخرةِ، قال : لا، والذي بعَثَك بالحقِّ ما كذَبْتُ عليها، ثم دعاها فوعَظَها وذكَّرَها، وأخبَرَها أنَّ عذابَ الدُّنيا أهوَنُ مِن عذابِ الآخرةِ، قالت: لا، والذي بعَثَك بالحقِّ إنَّه لكاذبٌ، فبدَأَ بالرَّجُلِ، فشَهِدَ أربَعَ شَهاداتٍ باللهِ إنَّه لَمِن الصادقين، والخامسةُ أنَّ لعنةَ اللهِ عليه إن كان مِن الكاذبِينَ، ثم ثنَّى بالمرأةِ، فشَهِدتْ أربَعَ شَهاداتٍ باللهِ إنَّه لَمِن الكاذبينَ، والخامسةُ أنَّ غضَبَ اللهِ عليها إن كان مِن الصادقينَ، ثم فرَّقَ بينهما». أخرجه مسلم (١٤٩٣).

- وفي هذه الآيةِ كلامٌ كثير فيما يتعلقُ بأسبابِ النزول، والاختلافِ فيها، والترجيحِ بينها، ويراجع للفائدة: "المحرر في أسباب النزول" (719)؛ فقد بحث المسألة بحثًا وافيًا، والله الموفِّق.

* قوله تعالى: {إِنَّ اْلَّذِينَ جَآءُو بِاْلْإِفْكِ عُصْبَةٞ مِّنكُمْۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرّٗا لَّكُمۖ بَلْ هُوَ خَيْرٞ لَّكُمْۚ لِكُلِّ اْمْرِيٕٖ مِّنْهُم مَّا اْكْتَسَبَ مِنَ اْلْإِثْمِۚ وَاْلَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُۥ مِنْهُمْ لَهُۥ عَذَابٌ عَظِيمٞ} [النور: 11]:

عن ابنِ شِهابٍ، قال: حدَّثَني عُرْوةُ بن الزُّبَيرِ، وسعيدُ بن المسيَّبِ، وعَلْقمةُ بن وقَّاصٍ، وعُبَيدُ اللهِ بن عبدِ اللهِ بن عُتْبةَ بن مسعودٍ؛ عن عائشةَ رضي الله عنها زوجِ النبيِّ صلى الله عليه وسلم، حينَ قال لها أهلُ الإفكِ ما قالوا، وكلُّهم حدَّثَني طائفةً مِن حديثِها، وبعضُهم كان أوعى لحديثِها مِن بعضٍ، وأثبَتَ له اقتصاصًا، وقد وعَيْتُ عن كلِّ رجُلٍ منهم الحديثَ الذي حدَّثَني عن عائشةَ، وبعضُ حديثِهم يُصدِّقُ بعضًا، وإن كان بعضُهم أوعى له مِن بعضٍ؛ قالوا:

قالت عائشةُ أمُّ المؤمنين رضي الله عنها: «كان رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم إذا أراد سَفَرًا أقرَعَ بين أزواجِه، فأيُّهنَّ خرَجَ سَهْمُها خرَجَ بها رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم معه.

قالت عائشةُ: فأقرَعَ بيننا في غزوةٍ غزاها، فخرَجَ فيها سَهْمي، فخرَجْتُ مع رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم بعدما أُنزِلَ الحجابُ، فكنتُ أُحمَلُ في هَوْدجي وأَنزِلُ فيه، فسِرْنا، حتى إذا فرَغَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم مِن غزوتِه تلك وقفَلَ، دنَوْنا مِن المدينةِ قافِلينَ، آذَنَ ليلةً بالرَّحيلِ، فقُمْتُ حين آذَنوا بالرَّحيلِ، فمشَيْتُ حتى جاوَزْتُ الجيشَ، فلمَّا قضَيْتُ شأني أقبَلْتُ إلى رَحْلي، فلمَسْتُ صدري، فإذا عِقْدٌ لي مِن جَزْعِ ظَفَارِ قد انقطَعَ، فرجَعْتُ، فالتمَسْتُ عِقْدي، فحبَسَني ابتغاؤُه، قالت: وأقبَلَ الرَّهْطُ الذين كانوا يُرحِّلوني، فاحتمَلوا هَوْدجي، فرحَلوه على بَعيري الذي كنتُ أركَبُ عليه، وهم يَحسَبون أنِّي فيه، وكان النساءُ إذ ذاك خِفافًا لم يَهبُلْنَ، ولم يَغشَهنَّ اللَّحْمُ، إنَّما يأكُلْنَ العُلْقةَ مِن الطعامِ، فلَمْ يستنكِرِ القومُ خِفَّةَ الهَوْدجِ حينَ رفَعوه وحمَلوه، وكنتُ جاريةً حديثةَ السِّنِّ، فبعَثوا الجمَلَ، فسارُوا، ووجَدتُّ عِقْدي بعدما استمَرَّ الجيشُ، فجِئْتُ مَنازِلَهم وليس بها منهم داعٍ ولا مجيبٌ، فتيمَّمْتُ منزلي الذي كنتُ به، وظنَنْتُ أنَّهم سيَفقِدوني فيَرجِعون إليَّ، فبَيْنا أنا جالسةٌ في منزلي، غلَبتْني عَيْني فنِمْتُ، وكان صَفْوانُ بنُ المُعطَّلِ السُّلَميُّ ثم الذَّكْوانيُّ مِن وراءِ الجيشِ، فأصبَحَ عند منزلي، فرأى سوادَ إنسانٍ نائمٍ، فعرَفَني حين رآني، وكان رآني قبل الحجابِ، فاستيقَظْتُ باسترجاعِه حين عرَفَني، فخمَّرْتُ وجهي بجِلْبابي، وواللهِ، ما تكلَّمْنا بكلمةٍ، ولا سَمِعْتُ منه كلمةً غيرَ استرجاعِه، وهَوَى حتى أناخَ راحلتَه، فوَطِئَ على يدِها، فقُمْتُ إليها، فرَكِبْتُها، فانطلَقَ يقُودُ بي الراحلةَ حتى أتَيْنا الجيشَ مُوغِرِينَ في نَحْرِ الظَّهيرةِ وهم نزولٌ، قالت: فهلَكَ مَن هلَكَ، وكان الذي تولَّى كِبْرَ الإفكِ عبدَ اللهِ بنَ أُبَيٍّ ابنَ سَلُولَ.

قال عُرْوةُ: أُخبِرْتُ أنَّه كان يشاعُ ويُتحدَّثُ به عنده، فيُقِرُّه ويستمِعُه ويَسْتَوْشِيهِ.

وقال عُرْوةُ أيضًا: لَمْ يُسَمَّ مِن أهلِ الإفكِ أيضًا إلا حسَّانُ بنُ ثابتٍ، ومِسطَحُ بنُ أُثَاثةَ، وحَمْنةُ بنتُ جَحْشٍ، في ناسٍ آخَرِينَ لا عِلْمَ لي بهم، غيرَ أنَّهم عُصْبةٌ؛ كما قال اللهُ تعالى، وإنَّ كُبْرَ ذلك يقالُ له: عبدُ اللهِ بنُ أُبَيٍّ ابنُ سَلُولَ.

قال عُرْوةُ: كانت عائشةُ تَكرَهُ أن يُسَبَّ عندها حسَّانُ، وتقولُ: إنَّه الذي قال:

فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي***لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْكُمْ وِقَاءُ

قالت عائشةُ: فقَدِمْنا المدينةَ، فاشتكَيْتُ حينَ قَدِمْتُ شهرًا، والناسُ يُفِيضون في قولِ أصحابِ الإفكِ، لا أشعُرُ بشيءٍ مِن ذلك، وهو يَرِيبُني في وجَعي أنِّي لا أعرِفُ مِن رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم اللُّطْفَ الذي كنتُ أرى منه حين أشتكي، إنَّما يدخُلُ عليَّ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فيُسلِّمُ، ثم يقولُ: «كيف تِيكُمْ؟»، ثم ينصرِفُ، فذلك يَرِيبُني، ولا أشعُرُ بالشرِّ، حتى خرَجْتُ حينَ نقَهْتُ، فخرَجْتُ مع أمِّ مِسطَحٍ قِبَلَ المَنَاصِعِ، وكان مُتبرَّزَنا، وكنَّا لا نخرُجُ إلا ليلًا إلى ليلٍ، وذلك قبل أن نتَّخِذَ الكُنُفَ قريبًا مِن بيوتِنا.

قالت: وأمرُنا أمرُ العرَبِ الأُوَلِ في البَرِّيَّةِ قِبَلَ الغائطِ، وكنَّا نتأذَّى بالكُنُفِ أن نتَّخِذَها عند بيوتِنا.

قالت: فانطلَقْتُ أنا وأمُّ مِسطَحٍ، وهي ابنةُ أبي رُهْمِ بنِ المطَّلِبِ بنِ عبدِ منافٍ، وأمُّها بنتُ صَخْرِ بنِ عامرٍ، خالةُ أبي بكرٍ الصِّدِّيقِ، وابنُها مِسطَحُ بنُ أُثَاثةَ بنِ عَبَّادِ بنِ المطَّلِبِ، فأقبَلْتُ أنا وأمُّ مِسطَحٍ قِبَلَ بيتي حينَ فرَغْنا مِن شأنِنا، فعثَرتْ أمُّ مِسطَحٍ في مِرْطِها، فقالت: تَعِسَ مِسطَحٌ، فقلتُ لها: بئسَ ما قُلْتِ، أتسُبِّينَ رجُلًا شَهِدَ بَدْرًا؟ فقالت: أيْ هَنْتَاهْ، ولم تَسمَعي ما قال؟ قالت: وقلتُ: ما قال؟ فأخبَرتْني بقولِ أهلِ الإفكِ، قالت: فازدَدتُّ مرَضًا على مرَضي، فلمَّا رجَعْتُ إلى بيتي، دخَلَ عليَّ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فسلَّمَ، ثم قال: «كيف تِيكُم؟»، فقلتُ له: أتأذَنُ لي أن آتيَ أبوَيَّ؟ قالت: وأريدُ أن أستيقِنَ الخبَرَ مِن قِبَلِهما، قالت: فأذِنَ لي رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم.

فقلتُ لأُمِّي: يا أُمَّتَاه، ماذا يَتحدَّثُ الناسُ؟ قالت: يا بُنَيَّةُ، هَوِّني عليكِ؛ فواللهِ، لقَلَّما كانت امرأةٌ قطُّ وَضِيئةٌ عند رجُلٍ يُحِبُّها، لها ضرائرُ، إلا كثَّرْنَ عليها، قالت: فقلتُ: سُبْحانَ اللهِ! أوَلَقَدْ تحدَّثَ الناسُ بهذا؟

قالت: فبكَيْتُ تلك الليلةَ حتى أصبَحْتُ، لا يَرقأُ لي دمعٌ، ولا أكتحِلُ بنَوْمٍ، ثم أصبَحْتُ أبكي.

قالت: ودعا رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم عليَّ بنَ أبي طالبٍ وأسامةَ بنَ زيدٍ حينَ استلبَثَ الوحيُ، يَسألُهما ويستشيرُهما في فِراقِ أهلِه، قالت: فأمَّا أسامةُ فأشار على رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم بالذي يَعلَمُ مِن براءةِ أهلِه، وبالذي يَعلَمُ لهم في نفسِه، فقال أسامةُ: أهلُك، ولا نَعلَمُ إلا خيرًا، وأمَّا عليٌّ فقال: يا رسولَ اللهِ، لم يُضيِّقِ اللهُ عليك، والنساءُ سِواها كثيرٌ، وسَلِ الجاريةَ تصدُقْكَ.

قالت: فدعا رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم بَرِيرةَ، فقال: أيْ بَرِيرةُ، هل رأيتِ مِن شيءٍ يَرِيبُكِ؟ قالت له بَرِيرةُ: والذي بعَثَك بالحقِّ، ما رأيتُ عليها أمرًا قطُّ أغمِصُهُ غيرَ أنَّها جاريةٌ حديثةُ السِّنِّ، تنامُ عن عجينِ أهلِها، فتأتي الدَّاجنُ فتأكُلُه.

قالت: فقام رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم مِن يومِه، فاستعذَرَ مِن عبدِ اللهِ بنِ أُبَيٍّ وهو على المِنبَرِ، فقال: يا معشرَ المسلمين، مَن يَعذِرُني مِن رجُلٍ قد بلَغَني عنه أذاه في أهلي؟ واللهِ، ما عَلِمْتُ على أهلي إلا خيرًا، ولقد ذكَروا رجُلًا ما عَلِمْتُ عليه إلا خيرًا، وما يدخُلُ على أهلي إلا معي، قالت: فقامَ سعدُ بنُ مُعاذٍ أخو بني عبدِ الأشهَلِ، فقال: أنا يا رسولَ اللهِ أعذِرُك، فإن كان مِن الأَوْسِ ضرَبْتُ عُنُقَه، وإن كان مِن إخوانِنا مِن الخَزْرَجِ أمَرْتَنا ففعَلْنا أمْرَك، قالت: فقامَ رجُلٌ مِن الخَزْرَجِ، وكانت أمُّ حسَّانَ بِنْتَ عَمِّه مِن فَخِذِه، وهو سعدُ بنُ عُبَادةَ، وهو سيِّدُ الخَزْرَجِ، قالت: وكان قَبْلَ ذلك رجُلًا صالحًا، ولكنِ احتمَلتْهُ الحَمِيَّةُ، فقال لسعدٍ: كذَبْتَ، لَعَمْرُ اللهِ لا تقتُلُه، ولا تَقدِرُ على قَتْلِه، ولو كان مِن رَهْطِك ما أحبَبْتَ أن يُقتَلَ، فقام أُسَيدُ بنُ حُضَيرٍ، وهو ابنُ عَمِّ سعدٍ، فقال لسعدِ بنِ عُبَادةَ: كذَبْتَ، لَعَمْرُ اللهِ لَنقتُلَنَّهُ؛ فإنَّك منافِقٌ تُجادِلُ عن المنافِقينَ، قالت: فثارَ الحيَّانِ: الأَوْسُ والخَزْرَجُ، حتى هَمُّوا أن يَقتتِلوا، ورسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم قائمٌ على المِنبَرِ، قالت: فلم يَزَلْ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يُخفِّضُهم حتى سكَتوا، وسكَتَ.

قالت: فبكَيْتُ يومي ذلك كلَّه، لا يَرقأُ لي دمعٌ، ولا أكتحِلُ بنَوْمٍ.

قالت: وأصبَحَ أبوايَ عندي، وقد بكَيْتُ ليلتَينِ ويومًا، لا يَرقأُ لي دمعٌ، ولا أكتحِلُ بنَوْمٍ، حتى إنِّي لَأظُنُّ أنَّ البكاءَ فالقٌ كبدي، فبَيْنا أبوايَ جالسانِ عندي وأنا أبكي، فاستأذَنتْ عليَّ امرأةٌ مِن الأنصارِ، فأذِنْتُ لها، فجلَستْ تبكي معي.

قالت: فبَيْنا نحن على ذلك، دخَلَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم علينا، فسلَّمَ، ثم جلَسَ، قالت: ولَمْ يَجلِسْ عندي منذُ قِيلَ ما قِيلَ قَبْلَها، وقد لَبِثَ شهرًا لا يوحى إليه في شأني بشيءٍ، قالت: فتشهَّدَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم حينَ جلَسَ، ثم قال: «أمَّا بعدُ، يا عائشةُ، إنَّه بلَغَني عنكِ كذا وكذا، فإن كنتِ بريئةً، فسيُبرِّئُكِ اللهُ، وإن كنتِ ألمَمْتِ بذَنْبٍ، فاستغفِري اللهَ وتُوبي إليه؛ فإنَّ العبدَ إذا اعترَفَ ثم تابَ، تابَ اللهُ عليه»، قالت: فلمَّا قضى رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم مقالتَه، قلَصَ دَمْعي حتى ما أُحِسُّ منه قطرةً، فقلتُ لأبي: أجِبْ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم عنِّي فيما قال، فقال أبي: واللهِ، ما أدري ما أقولُ لرسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فقلتُ لأُمِّي: أجيبي رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم فيما قال، قالت أُمِّي: واللهِ، ما أدري ما أقولُ لرسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فقلتُ - وأنا جاريةٌ حديثةُ السِّنِّ لا أقرأُ مِن القرآنِ كثيرًا -: إنِّي واللهِ لقد عَلِمْتُ؛ لقد سَمِعْتُم هذا الحديثَ حتى استقَرَّ في أنفُسِكم، وصدَّقْتُم به، فلَئِنْ قلتُ لكم: إنِّي بريئةٌ، لا تُصدِّقوني، ولَئِنِ اعترَفْتُ لكم بأمرٍ، واللهُ يَعلَمُ أنِّي منه بريئةٌ؛ لَتُصدِّقُنِّي، فواللهِ، لا أجدُ لي ولكم مثَلًا إلا أبا يوسُفَ حينَ قال: {فَصَبْرٞ ‌جَمِيلٞۖ ‌وَاْللَّهُ اْلْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ} [يوسف: 18]، ثم تحوَّلْتُ واضطَجَعْتُ على فِراشي، واللهُ يَعلَمُ أنِّي حينئذٍ بريئةٌ، وأنَّ اللهَ مُبَرِّئي ببراءتي، ولكنْ واللهِ ما كنتُ أظُنُّ أنَّ اللهَ مُنزِلٌ في شأني وَحْيًا يُتلَى، لَشأني في نفسي كان أحقَرَ مِن أن يَتكلَّمَ اللهُ فيَّ بأمرٍ، ولكنْ كنتُ أرجو أن يَرى رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم في النَّوْمِ رُؤْيَا يُبرِّئُني اللهُ بها، فواللهِ، ما رامَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم مَجلِسَه، ولا خرَجَ أحدٌ مِن أهلِ البيتِ حتى أُنزِلَ عليه، فأخَذَه ما كان يأخُذُه مِن البُرَحاءِ، حتى إنَّه لَيَتحدَّرُ منه مِن العَرَقِ مِثْلُ الجُمَانِ وهو في يومٍ شاتٍ مِن ثِقَلِ القولِ الذي أُنزِلَ عليه، قالت: فسُرِّيَ عن رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم وهو يَضحَكُ، فكانت أوَّلَ كلمةٍ تكلَّمَ بها أن قال: «يا عائشةُ، أمَّا اللهُ فقد برَّأَكِ»، قالت: فقالت لي أُمِّي: قُومِي إليه، فقلتُ: واللهِ لا أقُومُ إليه؛ فإنِّي لا أحمَدُ إلا اللهَ عز وجل.

قالت: وأنزَلَ اللهُ تعالى: {إِنَّ اْلَّذِينَ جَآءُو بِاْلْإِفْكِ عُصْبَةٞ مِّنكُمْۚ} [النور: 11] العَشْرَ الآياتِ، ثم أنزَلَ اللهُ هذا في براءتي.

قال أبو بكرٍ الصِّدِّيقُ - وكان يُنفِقُ على مِسطَحِ بنِ أُثَاثةَ؛ لقَرابتِه منه وفقرِه -: واللهِ، لا أُنفِقُ على مِسطَحٍ شيئًا أبدًا بعد الذي قال لعائشةَ ما قال؛ فأنزَلَ اللهُ: {وَلَا يَأْتَلِ أُوْلُواْ اْلْفَضْلِ مِنكُمْ} [النور: 22] إلى قولِه: {غَفُورٞ رَّحِيمٌ} [النور: 22]، قال أبو بكرٍ الصِّدِّيقُ: بلى واللهِ إنِّي لَأُحِبُّ أن يَغفِرَ اللهُ لي، فرجَعَ إلى مِسطَحٍ النَّفقةَ التي كان يُنفِقُ عليه، وقال: واللهِ، لا أنزِعُها منه أبدًا.

قالت عائشةُ: وكان رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم سألَ زَيْنَبَ بنتَ جَحْشٍ عن أمري، فقال لزَيْنَبَ: ماذا عَلِمْتِ أو رأَيْتِ؟ فقالت: يا رسولَ اللهِ، أَحْمي سمعي وبصَري، واللهِ، ما عَلِمْتُ إلا خيرًا، قالت عائشةُ: وهي التي كانت تُسامِيني مِن أزواجِ النبيِّ صلى الله عليه وسلم، فعصَمَها اللهُ بالوَرَعِ، قالت: وطَفِقَتْ أختُها حَمْنةُ تُحارِبُ لها، فهلَكتْ فيمَن هلَكَ.

قال ابنُ شهابٍ: فهذا الذي بلَغَني مِن حديثِ هؤلاء الرَّهْطِ، ثم قال عُرْوةُ: قالت عائشةُ: واللهِ، إنَّ الرَّجُلَ الذي قِيلَ له ما قِيلَ ليقولُ: سُبْحانَ اللهِ! فوالذي نفسي بيدِه، ما كشَفْتُ مِن كَنَفِ أُنْثَى قطُّ، قالت: ثم قُتِلَ بعد ذلك في سبيلِ اللهِ». أخرجه البخاري (٤١٤١).

* قوله تعالى: {وَلَا تُكْرِهُواْ فَتَيَٰتِكُمْ عَلَى اْلْبِغَآءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنٗا لِّتَبْتَغُواْ عَرَضَ اْلْحَيَوٰةِ اْلدُّنْيَاۚ وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اْللَّهَ مِنۢ بَعْدِ إِكْرَٰهِهِنَّ غَفُورٞ رَّحِيمٞ} [النور: 33]:

عن جابرِ بن عبدِ اللهِ رضي الله عنهما، قال: «كان عبدُ اللهِ بنُ أُبَيٍّ ابنُ سَلُولَ يقولُ لجاريةٍ له: اذهَبي فابغِينا شيئًا؛ فأنزَلَ اللهُ عز وجل: {وَلَا تُكْرِهُواْ فَتَيَٰتِكُمْ عَلَى اْلْبِغَآءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنٗا لِّتَبْتَغُواْ عَرَضَ اْلْحَيَوٰةِ اْلدُّنْيَاۚ وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اْللَّهَ مِنۢ بَعْدِ إِكْرَٰهِهِنَّ غَفُورٞ رَّحِيمٞ} [النور: 33]». أخرجه مسلم (٣٠٢٩).

* قوله تعالى: {وَعَدَ اْللَّهُ اْلَّذِينَ ءَامَنُواْ مِنكُمْ وَعَمِلُواْ اْلصَّٰلِحَٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي اْلْأَرْضِ كَمَا اْسْتَخْلَفَ اْلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ اْلَّذِي اْرْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّنۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنٗاۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْـٔٗاۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ اْلْفَٰسِقُونَ} [النور: 55]:

عن أُبَيِّ بن كعبٍ رضي الله عنه، قال: «لمَّا قَدِمَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم وأصحابُه المدينةَ، وآوَتْهم الأنصارُ؛ رمَتْهم العرَبُ عن قوسٍ واحدةٍ، كانوا لا يَبِيتون إلا بالسِّلاحِ، ولا يُصبِحون إلا فيه، فقالوا: تَرَوْنَ أنَّا نعيشُ حتى نكونَ آمِنِينَ مطمئنِّينَ لا نخافُ إلا اللهَ؛ فنزَلتْ: {وَعَدَ اْللَّهُ اْلَّذِينَ ءَامَنُواْ مِنكُمْ وَعَمِلُواْ اْلصَّٰلِحَٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي اْلْأَرْضِ كَمَا اْسْتَخْلَفَ اْلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ اْلَّذِي اْرْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّنۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنٗاۚ} إلى {وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ} يعني: بالنِّعْمةِ، {فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ اْلْفَٰسِقُونَ} [النور: 55]». أخرجه الحاكم (3512).

* قوله تعالى: {لَّيْسَ عَلَى اْلْأَعْمَىٰ حَرَجٞ} [النور: 61]:

عن عائشةَ رضي الله عنها، قالت: «كان المسلمون يَرغَبون في النَّفيرِ مع رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فيَدفَعون مفاتيحَهم إلى ضَمْنَاهم، ويقولون لهم: قد أحلَلْنا لكم أن تأكلوا ما أحبَبْتم، فكانوا يقولون: إنَّه لا يَحِلُّ لنا؛ إنَّهم أَذِنوا مِن غيرِ طِيبِ نفسٍ؛ فأنزَلَ اللهُ عز وجل: {لَّيْسَ عَلَى اْلْأَعْمَىٰ حَرَجٞ وَلَا عَلَى اْلْأَعْرَجِ حَرَجٞ وَلَا عَلَى اْلْمَرِيضِ حَرَجٞ وَلَا عَلَىٰٓ أَنفُسِكُمْ أَن تَأْكُلُواْ مِنۢ بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ ءَابَآئِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَٰتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَٰنِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَٰتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَٰمِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّٰتِكُمْ} [النور: 61] إلى قولِه: {أَوْ مَا مَلَكْتُم مَّفَاتِحَهُۥٓ} [النور: 61]». "الصحيح المسند من أسباب النزول" (170).

* سورة (النُّور):

سُمِّيتْ سورة (النُّور) بذلك؛ لذِكْرِ النُّور فيها، وقد تكرَّر فيها سبعَ مرات، وفيها آيةُ (النُّور).

* ورَد في سورة (النُّور) كثيرٌ من الأحكام؛ لذا جاء في فضلها:

عن أبي وائلٍ رحمه الله، قالَ: «قرَأَ ابنُ عباسٍ سورةَ (النُّورِ)، ثمَّ جعَلَ يُفسِّرُها، فقال رجُلٌ: لو سَمِعتْ هذا الدَّيْلَمُ، لأسلَمتْ». " فتح الباري" لابن حجر (٧‏/١٢٦).

وعن مجاهدِ بن جَبْرٍ المكِّيِّ رحمه الله، قال: «علِّموا رجالَكم سورةَ (المائدةِ)، وعلِّموا نساءَكم سورةَ (النُّورِ)». أخرجه البيهقي (٢٤٢٨).

تضمَّنتْ سورةُ (النُّور) الموضوعات الآتية:

1. الزِّنا والأحكام المتعلقة به (١-١٠).

2. حادثة (الإفك) (١١-٢٦).

3. آداب اجتماعية (٢٧-٣٤).

4. نور الإيمان، وظلام الكفر (٣٥-٤٠).

5. مِن آثار قدرة الله وعظمته (٤١-٤٦).

6. المنافقون لم ينتفعوا بآيات الله (٤٧-٥٤).

7. جزاء الطاعة في الدنيا والآخرة (٥٥-٥٧).

8. آداب الاستئذان داخل البيت (٥٨-٦٠).

9. الأكل من بيوت الأقارب (٦١).

10. أدب المؤمن مع الرسول عليه السلام (٦٢-٦٤).

ينظر: "التفسير الموضوعي للقرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (5 /172).

تضمَّن اسمُ السورة مقصدَها؛ وهو أنه تعالى شامل العلمِ، اللازمِ منه تمامُ القدرة، اللازم منه إثباتُ الأمور على غاية الحِكمة، اللازم منه تأكيدُ الشَّرف للنبي صلى الله عليه وسلم، اللازم منه شَرَفُ من اختاره سبحانه لصُحْبتِه، على منازلِ قُرْبِهم منه، واختصاصهم به، اللازم منه غايةُ النزاهة والشَّرف والطهارة لأمِّ المؤمنين عائشة رضي الله عنها، التي مات صلى الله عليه وسلم وهو عنها راضٍ، ثم ماتت هي رضي الله عنها صالحةً محسنة، وهذا هو المقصود بالذات، ولكن إثباته محتاجٌ إلى تلك المقدِّمات.

ينظر: "مصاعد النظر للإشراف على مقاصد السور" للبقاعي (2 /310).