ترجمة سورة النجم

محمد جوناگڑھی - Urdu translation

ترجمة معاني سورة النجم باللغة الأردية من كتاب محمد جوناگڑھی - Urdu translation.

نجم


قسم ہے ستارے کی جب وه گرے

کہ تمہارے ساتھی نے نہ راه گم کی ہے نہ وه ٹیڑھی راه پر ہے

اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں

وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے

اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے

جو زور آور ہے پھر وه سیدھا کھڑا ہو گیا

اور وه بلند آسمان کے کناروں پر تھا

پھر نزدیک ہوا اور اتر آیا

پس وه دو کمانوں کے بقدر فاصلہ ره گیا بلکہ اس سے بھی کم

پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی

دل نے جھوٹ نہیں کہا جسے (پیغمبر نے) دیکھا

کیا تم جھگڑا کرتے ہو اس پر جو (پیغمبر) دیکھتے ہیں

اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا

سدرةالمنتہیٰ کے پاس

اسی کے پاس جنہ الماویٰ ہے

جب کہ سدره کو چھپائے لیتی تھی وه چیز جو اس پر چھا رہی تھی

نہ تو نگاه بہکی نہ حد سے بڑھی

یقیناً اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں

کیا تم نے ﻻت اور عزیٰ کو دیکھا

اور منات تیسرے پچھلے کو

کیا تمہارے لیے لڑکے اور اللہ کے لیے لڑکیاں ہیں؟

یہ تو اب بڑی بےانصافی کی تقسیم ہے

دراصل یہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے ان کے رکھ لیے ہیں اللہ نے ان کی کوئی دلیل نہیں اتاری۔ یہ لوگ تو صرف اٹکل کے اور اپنی نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ اور یقیناً ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس ہدایت آ چکی ہے

کیا ہر شخص جو آرزو کرے اسے میسر ہے؟

اللہ ہی کے ہاتھ ہے یہ جہان اور وه جہان

اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی مگر یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خوشی اور اپنی چاہت سے جس کے لیے چاہے اجازت دے دے

بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وه فرشتوں کا زنانہ نام مقرر کرتے ہیں

حاﻻنکہ انہیں اس کا کوئی علم نہیں وه صرف اپنے گمان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور بیشک وہم (و گمان) حق کے مقابلے میں کچھ کام نہیں دیتا

تو آپ اس سے منھ موڑ لیں جو ہماری یاد سے منھ موڑے اور جن کا اراده بجز زندگانیٴ دنیا کے اور کچھ نہ ہو

یہی ان کے علم کی انتہا ہے۔ آپ کا رب اس سے خوب واقف ہے جو اس کی راه سے بھٹک گیا ہے اور وہی خوب واقف ہےاس سے بھی جو راه یافتہ ہے

اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے تاکہ اللہ تعالیٰ برے عمل کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور نیک کام کرنے والوں کو اچھا بدلہ عنایت فرمائے

ان لوگوں کو جو بڑے گناہوں سے بچتے ہیں اور بے حیائی سے بھی۔ سوائے کسی چھوٹے سے گناه کے۔ بیشک تیرا رب بہت کشاده مغفرت واﻻ ہے، وه تمہیں بخوبی جانتا ہے جبکہ اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور جبکہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے۔ پس تم اپنی پاکیزگی آپ بیان نہ کرو، وہی پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے

کیا آپ نے اسے دیکھا جس نے منھ موڑ لیا

اور بہت کم دیا اور ہاتھ روک لیا

کیا اسے علم غیب ہے کہ وه (سب کچھ) دیکھ رہا ہے؟

کیا اسے اس چیز کی خبر نہیں دی گئی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے

اور وفادار ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیفوں میں تھا

کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا

اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

اور یہ کہ بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی

پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا

اور یہ کہ آپ کے رب ہی کی طرف پہنچنا ہے

اور یہ کہ وہی ہنساتا ہے اور وہی رﻻتا ہے

اور یہ کہ وہی مارتا ہے اور جلاتا ہے

اور یہ کہ اسی نے جوڑا یعنی نر ماده پیدا کیا ہے

نطفہ سے جبکہ وه ٹپکایا جاتا ہے

اور یہ کہ اسی کے ذمہ دوباره پیدا کرنا ہے

اور یہ کہ وہی مالدار بناتا ہے اور سرمایہ دیتا ہے

اور یہ کہ وہی شعریٰ (ستارے) کا رب ہے

اور یہ کہ اس نے عاد اول کو ہلاک کیا ہے

اور ﺛمود کو بھی (جن میں سے) ایک کو بھی باقی نہ رکھا

اور اس سے پہلے قوم نوح کو، یقیناً وه بڑے ﻇالم اور سرکش تھے

اور مؤتفکہ (شہر یا الٹی ہوئی بستیوں کو) اسی نے الٹ دیا

پھر اس پر چھا دیا جو چھایا

پس اے انسان تو اپنے رب کی کس کس نعمت کے بارے میں جھگڑے گا؟

یہ (نبی) ڈرانے والے ہیں پہلے ڈرانے والوں میں سے

آنے والی گھڑی قریب آ گئی ہے

اللہ کے سوا اس کا (وقت معین پر کھول) دکھانے واﻻ اور کوئی نہیں

پس کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو

اور ہنس رہے ہو؟ روتے نہیں؟

(بلکہ) تم کھیل رہے ہو

اب اللہ کے سامنے سجدے کرو اور (اسی) کی عبادت کرو
سورة النجم
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورة (النَّجْم) من السُّوَر المكية، نزلت بعد سورة (الإخلاص)، وقد أشارت إلى صدقِ النبيِّ صلى الله عليه وسلم في تبليغه الرسالةَ، ونفيِ الهوى عنه، وأن كلَّ ما جاء به هو وحيٌ من عند الله، عن طريق جبريلَ عليه السلام؛ فحاشاه صلى الله عليه وسلم أن يفتريَ على الله الكذبَ، كما جاءت السورةُ الكريمة بإثبات بطلان الآلهة التي يَدْعُونها من دُونِ الله؛ فهو وحده المستحِقُّ للعبادة.

ترتيبها المصحفي
53
نوعها
مكية
ألفاظها
361
ترتيب نزولها
23
العد المدني الأول
61
العد المدني الأخير
61
العد البصري
61
العد الكوفي
62
العد الشامي
61

*  سورة (النَّجْم):

سُمِّيت سورة (النَّجْم) بهذا الاسم؛ لافتتاحها بقَسَم الله عز وجل بالنَّجْم.

* سورة (النَّجْم) هي أولُ سورةٍ أُنزلت فيها سجدةٌ:

عن عبدِ اللهِ بن مسعودٍ رضي الله عنه، قال: «أولُ سورةٍ أُنزِلتْ فيها سَجْدةٌ: {وَاْلنَّجْمِ}، قال: فسجَدَ رسولُ اللهِ ﷺ، وسجَدَ مَن خَلْفَه، إلا رجُلًا رأَيْتُه أخَذَ كفًّا مِن ترابٍ فسجَدَ عليه، فرأَيْتُه بعدَ ذلك قُتِلَ كافرًا؛ وهو أُمَيَّةُ بنُ خَلَفٍ». أخرجه البخاري (٤٨٦٣).

1. إثبات الوحيِ، وتزكيةُ مَن أُنزِلَ عليه (١-١٨).

2. الظنُّ لا يغني من الحق شيئًا (١٩-٣٢).

3. ذمُّ المشركين، وبيانُ وَحْدة رسالة التوحيد (٣٣- ٦٢).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (7 /490).

مقصدُ السورة الأعظم هو إثبات صدقِ النبي صلى الله عليه وسلم فيما جاء به، ونفيِ الهوى عنه، فلا يَتكلَّم إلا بما علَّمه اللهُ إياه عن طريق الوحيِ؛ فهو الصادقُ المصدوق المبعوث من عند القويِّ المتعال، وفي ذلك يقول ابنُ عاشور رحمه الله مشيرًا إلى مقصودها: «تحقيقُ أن الرسول صلى الله عليه وسلم صادقٌ فيما يبلغه عن الله تعالى، وأنه مُنزَّه عما ادَّعَوْهُ.

وإثباتُ أن القرآن وحيٌ من عند الله بواسطة جبريل.

وتقريبُ صفة نزول جبريل بالوحيِ في حالينِ؛ زيادةً في تقرير أنه وحيٌ من الله واقع لا محالةَ.

وإبطالُ إلهيَّة أصنام المشركين.

وإبطال قولهم في اللاتِ والعُزَّى ومَناةَ: بناتُ الله، وأنها أوهام لا حقائقَ لها، وتنظيرُ قولهم فيها بقولهم في الملائكة: إنهم إناثٌ». "التحرير والتنوير" لابن عاشور (27 /88).

وينظر: "مصاعد النظر للإشراف على مقاصد السور" للبقاعي (3 /35).