ترجمة سورة السجدة

محمد جوناگڑھی - Urdu translation

ترجمة معاني سورة السجدة باللغة الأردية من كتاب محمد جوناگڑھی - Urdu translation.

سجدہ


الم

بلاشبہ اس کتاب کا اتارنا تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے

کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے۔ (نہیں نہیں) بلکہ یہ تیرے رب تعالیٰ کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ انہیں ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے واﻻ نہیں آیا۔ تاکہ وه راه راست پر آجائیں

اللہ تعالیٰ وه ہے جس نے آسمان وزمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قائم ہوا، تمہارے لئے اس کے سوا کوئی مددگار اور سفارشی نہیں۔ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے

وه آسمان سے لے کر زمین تک (ہر) کام کی تدبیر کرتا ہے۔ پھر (وه کام) ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازه تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے

یہی ہے چھپے کھلے کا جاننے واﻻ، زبردست غالب بہت ہی مہربان

جس نے نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی

پھر اس کی نسل ایک بے وقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی

جسے ٹھیک ٹھاک کر کے اس میں اپنی روح پھونکی، اسی نے تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے (اس پر بھی) تم بہت ہی تھوڑا احسان مانتے ہو

انہوں نے کہا کیا جب ہم زمین میں مل جائیں گے کیا پھر نئی پیدائش میں آجائیں گے؟ بلکہ (بات یہ ہے) کہ وه لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں

کہہ دیجئے! کہ تمہیں موت کا فرشتہ فوت کرے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے پھر تم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے

کاش کہ آپ دیکھتے جب کہ گناه گار لوگ اپنے رب تعالیٰ کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں گے، کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب تو ہمیں واپس لوٹا دے ہم نیک اعمال کریں گے ہم یقین کرنے والے ہیں

اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت نصیب فرما دیتے، لیکن میری یہ بات بالکل حق ہو چکی ہے کہ میں ضرور ضرور جہنم کو انسانوں اور جنوں سے پر کردوں گا

اب تم اپنے اس دن کی ملاقات کے فراموش کر دینے کا مزه چکھو، ہم نے بھی تمہیں بھلا دیا اور اپنے کیے ہوئے اعمال (کی شامت) سے ابدی عذاب کا مزه چکھو

ہماری آیتوں پر وہی ایمان ﻻتے ہیں جنہیں جب کبھی ان سے نصیحت کی جاتی ہے تو وه سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح پڑھتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے ہیں

ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وه خرچ کرتے ہیں

کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیده کر رکھی ہے، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے

کیا وه جو مومن ہو مثل اس کے ہے جو فاسق ہو؟ یہ برابر نہیں ہو سکتے

جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال بھی کیے ان کے لئے ہمیشگی والی جنتیں ہیں، مہمانداری ہے ان کے اعمال کے بدلے جو وه کرتے تھے

لیکن جن لوگوں نے حکم عدولی کی ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ جب کبھی اس سے باہر نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے۔ اور کہہ دیا جائے گا کہ اپنے جھٹلانے کے بدلے آگ کا عذاب چکھو

بالیقین ہم انہیں قریب کے چھوٹے سے بعض عذاب اس بڑے عذاب کے سوا چکھائیں گے تاکہ وه لوٹ آئیں

اس سے بڑھ کر ﻇالم کون ہے جسے اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے وعﻆ کیا گیا پھر بھی اس نے ان سے منھ پھیر لیا، (یقین مانو) کہ ہم بھی گناه گاروں سے انتقام لینے والے ہیں

بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، پس آپ کو ہرگز اس کی ملاقات میں شک نہ کرنا چاہئے اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا

اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے، اور وه ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے

آپ کا رب ان (سب) کے درمیان ان (تمام) باتوں کا فیصلہ قیامت کے دن کرے گا جن میں وه اختلاف کر رہے ہیں

کیا اس بات نے بھی انہیں ہدایت نہیں دی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی امتوں کو ہلاک کر دیا جن کے مکانوں میں یہ چل پھر رہے ہیں۔ اس میں تو (بڑی) بڑی نشانیاں ہیں۔ کیا پھر بھی یہ نہیں سنتے؟

کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم پانی کو بنجر (غیر آباد) زمین کی طرف بہا کر لے جاتے ہیں پھر اس سے ہم کھیتیاں نکالتے ہیں جسے ان کے چوپائے اور یہ خود کھاتے ہیں، کیا پھر بھی یہ نہیں دیکھتے؟

اور کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ کب ہوگا؟ اگر تم سچے ہو (تو بتلاؤ)

جواب دے دو کہ فیصلے والے دن ایمان ﻻنا بے ایمانوں کو کچھ کام نہ آئے گا اور نہ انہیں ڈھیل دی جائے گی

اب آپ ان کا خیال چھوڑ دیں اور منتظر رہیں۔ یہ بھی منتظر ہیں
سورة السجدة
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورةُ (السَّجْدة) من السُّوَر المكية، وقد جاءت بإنذارِ الكافرين من النار، وتوبيخِهم على اتِّباع الآلهة الزائفة التي لا تغني من الحقِّ شيئًا، ودعَتْهم إلى التواضُعِ واتِّباع دِينِ الله الحقِّ؛ من خلال تَرْكِ التكبُّر، والسجودِ لله، مذكِّرةً لهم بأصلِ خِلْقتهم، وبقوَّةِ الله عز وجل وقُدْرته؛ فهو المستحِقُّ للعبادة، وقد كان صلى الله عليه وسلم يَقرؤُها في صلاةِ فَجْرِ يوم الجمعة.

ترتيبها المصحفي
32
نوعها
مكية
ألفاظها
374
ترتيب نزولها
75
العد المدني الأول
30
العد المدني الأخير
30
العد البصري
29
العد الكوفي
30
العد الشامي
30

* قوله تعالى: {تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ اْلْمَضَاجِعِ} [السجدة: 16]:

عن أنسِ بن مالكٍ رضي الله عنه: «أنَّ هذه الآيةَ: {تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ اْلْمَضَاجِعِ} [السجدة: 16]  نزَلتْ في انتظارِ الصَّلاةِ التي تُدْعى العَتَمةَ». أخرجه الترمذي (٣١٩٦).

و(صلاةُ العَتَمةِ): هي صلاةُ العِشاءِ؛ لِما جاء في الحديثِ عن عبدِ اللهِ بن عُمَرَ رضي الله عنهما، قال: «صلَّى لنا رسولُ اللهِ ﷺ العِشاءَ، وهي التي يَدْعو الناسُ العَتَمةَ ...». أخرجه البخاري (٥٦٤).

* سورة (السَّجْدة):

سُمِّيت بذلك لِما ذكَر اللهُ تعالى فيها من أوصافِ المؤمنين، الذين إذا سَمِعوا آياتِ القرآن {خَرُّواْۤ سُجَّدٗاۤ وَسَبَّحُواْ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ} [السجدة: 15]. وقال البِقاعيُّ: «واسمُها (السَّجْدة) منطبِقٌ على ذلك بما دعَتْ إليه آيَتُها من الإخباتِ، وتركِ الاستكبار». "مصاعد النظر للإشراف على مقاصد السور" (2 /361).

* سورة ({الٓمٓ ١ تَنزِيلُ})، أو ({الٓمٓ ١ تَنزِيلُ} السَّجْدةَ):

دلَّ على ذلك افتتاحُ السُّورة بذلك، واحتواؤها على سَجْدةٍ، وصحَّ عن عبدِ اللهِ بن عباسٍ رضي الله عنهما: «أنَّ النبيَّ ﷺ كان يَقرأُ في صلاةِ الفَجْرِ يومَ الجُمُعةِ: {الٓمٓ ١ تَنزِيلُ} السَّجْدةَ، و{هَلْ أَتَىٰ عَلَى اْلْإِنسَٰنِ حِينٞ مِّنَ اْلدَّهْرِ}، وأنَّ النبيَّ ﷺ كان يَقرأُ في صلاةِ الجُمُعةِ سورةَ الجُمُعةِ، والمُنافِقِينَ». أخرجه مسلم (٨٧٩).

ولها أسماءٌ أخرى غيرُ ما ذكرنا.

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (6 /47-48).

* كان النبيُّ صلى الله عليه وسلم يَقرؤُها في فَجْرِ يوم الجمعة:

 عن عبدِ اللهِ بن عباسٍ رضي الله عنهما: «أنَّ النبيَّ ﷺ كان يَقرأُ في صلاةِ الفَجْرِ يومَ الجُمُعةِ: {الٓمٓ ١ تَنزِيلُ} السَّجْدةَ، و{هَلْ أَتَىٰ عَلَى اْلْإِنسَٰنِ حِينٞ مِّنَ اْلدَّهْرِ}، وأنَّ النبيَّ ﷺ كان يَقرأُ في صلاةِ الجُمُعةِ سورةَ الجُمُعةِ، والمُنافِقِينَ». أخرجه مسلم (٨٧٩).

* كان النبيُّ صلى الله عليه وسلم يَقرؤُها قبل نومِه:

عن جابرِ بن عبدِ اللهِ رضي الله عنهما: «أنَّ النبيَّ ﷺ كان لا يَنامُ حتى يَقرأَ {الٓمٓ ١ تَنزِيلُ}، و{تَبَٰرَكَ اْلَّذِي بِيَدِهِ اْلْمُلْكُ}». أخرجه الترمذي (٣٤٠٤).

اشتمَلتْ سورةُ (السَّجْدة) على الموضوعات الآتية:

1. القرآن حقٌّ مُنزَّل (١-٣).

2. الخَلْقُ: مُدَّته، وأنه حسَنٌ (٤-٩).

3. إثبات البعث (١٠-١١).

4. ذلُّ المجرمين يوم الدِّين (١٢-١٤).

5. علامات الإيمان (١٥- ١٧).

6. الجزاء العادل (١٨-٢٢).

7. الإمامة في الدِّين (٢٣-٢٥).

8. آياتٌ وعِظات (٢٦- ٣٠).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (6 /51).

مقصدُ السُّورة الأعظم: هو إنذارُ الكفار بهذا الكتاب، وأنه مِن عندِ الله عزَّ وجلَّ؛ فلا يأتيه الباطلُ مِن بينِ يديه ولا مِن خلفِه، وبيانُ بطلانِ آلهتهم وزيفِها، والتذكيرُ بقدرة الله والبعث، وكذا تذكيرُهم بوجوب اتِّباع النبي صلى الله عليه وسلم المرسَل بهذا الكتاب؛ فمِن خلال الاتباع يكون الفوزُ بالجنة، والنجاةُ من النار، ولتحقيقِ ذلك لا بد من الاستجابة لله، والتواضُعِ لأمره، وتركِ الاستكبار والعناد، واسمُ السورة دالٌّ على ذلك.

ينظر: "مصاعد النظر للإشراف على مقاصد السور" للبقاعي (2 /361)، و"التحرير والتنوير" لابن عاشور (21 /204).