ترجمة سورة الذاريات

محمد جوناگڑھی - Urdu translation

ترجمة معاني سورة الذاريات باللغة الأردية من كتاب محمد جوناگڑھی - Urdu translation.

ذاریات


قسم ہے بکھیرنے والیوں کی اڑا کر

پھر اٹھانے والیاں بوجھ کو

پھر چلنے والیاں نرمی سے

پھر کام کو تقسیم کرنے والیاں

یقین مانو کہ تم سے جو وعدے کیے جاتے ہیں (سب) سچے ہیں

اور بیشک انصاف ہونے واﻻ ہے

قسم ہے راہوں والے آسمان کی

یقیناً تم مختلف بات میں پڑے ہوئے ہو

اس سے وہی باز رکھا جاتا ہے جو پھیر دیا گیا ہو

بے سند باتیں کرنے والے غارت کر دیئے گئے

جو غفلت میں ہیں اور بھولے ہوئے ہیں

پوچھتے ہیں کہ یوم جزا کب ہوگا؟

ہاں یہ وه دن ہے کہ یہ آگ پر تپائے جائیں گے

اپنی فتنہ پردازی کا مزه چکھو، یہی ہے جس کی تم جلدی مچا رہے تھے

بیشک تقویٰ والے لوگ بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے

ان کے رب نے جو کچھ انہیں عطا فرمایا ہے اسے لے رہے ہوں گے وه تو اس سے پہلے ہی نیکوکار تھے

وه رات کو بہت کم سویا کرتے تھے

اور وقت سحر استغفار کیا کرتے تھے

اور ان کے مال میں مانگنے والوں کا اور سوال سے بچنے والوں کا حق تھا

اور یقین والوں کے لئے تو زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں

اور خود تمہاری ذات میں بھی، تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو

اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعده کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے

آسمان وزمین کے پروردگار کی قسم! کہ یہ بالکل برحق ہے ایسا ہی جیسے کہ تم باتیں کرتے ہو

کیا تجھے ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کی خبر بھی پہنچی ہے؟

وه جب ان کے ہاں آئے تو سلام کیا، ابراہیم نے جواب سلام دیا (اور کہا یہ تو) اجنبی لوگ ہیں

پھر (چﭗ چاپ جلدی جلدی) اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ایک فربہ بچھڑے (کا گوشت) ﻻئے

اور اسے ان کے پاس رکھا اور کہا آپ کھاتے کیوں نہیں

پھر تو دل ہی دل میں ان سے خوفزده ہوگئے انہوں نے کہا آپ خوف نہ کیجئے۔ اور انہوں نے اس (حضرت ابراہیم) کو ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی

پس ان کی بیوی آگے بڑھی اور حیرت میں آکر اپنے منھ پر ہاتھ مار کر کہا کہ میں تو بوڑھیا ہوں اور ساتھ ہی بانجھ

انہوں نے کہا ہاں تیرے پروردگار نے اسی طرح فرمایا ہے، بیشک وه حکیم وعلیم ہے

(حضرت ابرہیم علیہ السلام) نے کہا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے (فرشتو!) تمہارا کیا مقصد ہے؟

انہوں نے جواب دیا کہ ہم گناه گار قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں

تاکہ ہم ان پر مٹی کے کنکر برسائیں

جو تیرے رب کی طرف سے نشان زده ہیں، ان حد سے گزر جانے والوں کے لیے

پس جتنے ایمان والے وہاں تھے ہم نے انہیں نکال لیا

اور ہم نے وہاں مسلمانوں کا صرف ایک ہی گھر پایا

اور وہاں ہم نے ان کے لیے جو درد ناک عذاب کا ڈر رکھتے ہیں ایک (کامل) علامت چھوڑی

موسیٰ (علیہ السلام کے قصے) میں (بھی ہماری طرف سے تنبیہ ہے) کہ ہم نے اسے فرعون کی طرف کھلی دلیل دے کر بھیجا

پس اس نےاپنے بل بوتے پر منھ موڑا اور کہنے لگا یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے

بالﺂخر ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو اپنے عذاب میں پکڑ کر دریا میں ڈال دیا وه تھا ہی ملامت کے قابل

اسی طرح عادیوں میں بھی (ہماری طرف سے تنبیہ ہے) جب کہ ہم نے ان پر خیر وبرکت سے خالی آندھی بھیجی

وه جس جس چیز پر گرتی تھی اسے بوسیده ہدی کی طرح (چورا چورا) کردیتی تھی

اور ﺛمود (کے قصے) میں بھی (عبرت) ہے جب ان سے کہا گیا کہ تم کچھ دنوں تک فائده اٹھا لو

لیکن انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی جس پر انہیں ان کے دیکھتے دیکھتے (تیز وتند) کڑاکے نے ہلاک کر دیا

پس نہ تو وه کھڑے ہو سکے اور نہ بدلہ لے سکے

اور نوح (علیہ السلام) کی قوم کا بھی اس سے پہلے (یہی حال ہو چکا تھا) وه بھی بڑے نافرمان لوگ تھے

آسمان کو ہم نے (اپنے) ہاتھوں سے بنایا ہے اور یقیناً ہم کشادگی کرنے والے ہیں

اور زمین کو ہم نے فرش بنا دیاہے پس ہم بہت ہی اچھے بچھانے والے ہیں

اور ہر چیز کو ہم نے جوڑا جوڑا پیداکیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو

پس تم اللہ کی طرف دوڑ بھاگ (یعنی رجوع) کرو، یقیناً میں تمہیں اس کی طرف سے صاف صاف تنبیہ کرنے واﻻ ہوں

اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھراؤ۔ بیشک میں تمہیں اس کی طرف سے کھلا ڈرانے واﻻ ہوں

اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کے پاس جو بھی رسول آیا انہوں نے کہہ دیا کہ یا تو یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے

کیایہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے گئے ہیں

(نہیں) بلکہ یہ سب کے سب سرکش ہیں۔ تو آپ ان سے منھ پھیر لیں آپ پر کوئی ملامت نہیں

اور نصیحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دے گی

میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں

نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں نہ میری یہ چاہت ہے کہ یہ مجھے کھلائیں

اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی واﻻ اور زور آور ہے

پس جن لوگوں نے ﻇلم کیا ہے انہیں بھی ان کے ساتھیوں کے حصہ کے مثل حصہ ملے گا، لہٰذا وه مجھ سے جلدی طلب نہ کریں

پس خرابی ہے منکروں کو ان کے اس دن کی جس کا وعده دیئے جاتے ہیں
سورة الذاريات
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورة (الذَّاريَات) من السُّوَر المكية، نزلت بعد سورة (الأحقاف)، وقد جاءت ببيانِ عظمة الله، وقُدْرتِه على التصرُّف في الكون، وإنزالِ العذاب بمَن شاء، كيف شاء، متى شاء، ومِن ذلك قَسَمُه بـ(الذَّاريَات)، وهي: الرِّياح، وهي آيةٌ من آيات الله، يُصرِّفها اللهُ إن شاء للرَّحمة، وإن شاء للعذاب؛ فعلى الناسِ الفرارُ إلى الله، الذي هو طريقُ النجاة.

ترتيبها المصحفي
51
نوعها
مكية
ألفاظها
360
ترتيب نزولها
67
العد المدني الأول
60
العد المدني الأخير
60
العد البصري
60
العد الكوفي
60
العد الشامي
60

* سورة (الذَّاريَات):

سُمِّيت سورةُ (الذَّاريَات) بهذا الاسم؛ لافتتاحها بالقَسَم بـ(الذَّاريَات)؛ وهي: الرِّياح.

* أُثِر عن النبي صلى الله عليه وسلم قراءتُه لسورة (الذَّاريَات) في صلاة الظُّهر:

عن البراءِ بن عازبٍ رضي الله عنهما، قال: «كُنَّا نُصلِّي خلفَ النبيِّ ﷺ الظُّهْرَ، فيُسمِعُنا الآيةَ بعد الآياتِ مِن لُقْمانَ والذَّاريَاتِ». أخرجه النسائي (٩٧١).

1. وقوع البعثِ والجزاء (١-٢٣).

2. دلائل القدرة الإلهية (٢٤-٤٦).

3. الفرارُ إلى الله طريق النجاة (٤٧- ٦٠).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (7 /443).

مقصودُ سورة (الذَّاريَات) هو الدعوةُ إلى طاعة الله، والاستجابة لأمره؛ من خلال التحذير من وقوع العذاب بالأقوام؛ فإن اللهَ في هذه السورة أقسَمَ بـ(الذَّاريَات)، وهي الرِّياح التي يُعذِّب الله بها من يشاء من عباده، يقول البِقاعي: «مقصودها: الدلالة على صدقِ ما أنذَرتْ به سورةُ (ق) تصريحًا، وبشَّرت به تلويحًا، ولا سيما من مُصاب الدنيا، وعذابِ الآخرة.

واسمها (الذَّاريَات): ظاهرٌ في ذلك، بملاحظة جواب القَسَم؛ فإنه - لِشِدة الارتباط - كالآية الواحدة وإن كان خمسًا.

وللتعبير عن الرِّياح بـ(الذَّاريَات) أتمُّ إشارةٍ إلى ذلك؛ فإن تكذيبَهم بالوعيد لكونهم لا يشعُرون بشيءٍ من أسبابه، وإن كانت موجودةً معهم». "مصاعد النظر للإشراف على مقاصد السور" للبقاعي (3 /25).