ترجمة سورة الأعلى

الترجمة الأردية

ترجمة معاني سورة الأعلى باللغة الأردية من كتاب الترجمة الأردية.
من تأليف: محمد إبراهيم جوناكري .

اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر.*
____________________
* یعنی ایسی چیزوں سے اللہ کی پاکیزگی جو اس کے لائق نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) اس کے جواب میں پڑھا کرتے تھے، سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى (مسند أحمد، 1/ 232 ۔ أبو داود، كتاب الصلاة، باب الدعاء في الصلاة، وقال الألباني صحيح ) ۔
جس نے پیدا کیا اور صحیح سالم بنایا.*
____________________
* دیکھئے سورۃ الانفطار کا حاشیہ نمبر۔ 7
اور جس نے (ٹھیک ٹھاک) اندازه کیا اور پھر راه دکھائی.*
____________________
* یعنی نیکی اور بدی کی۔ اس طرح ضروریات زندگی کی۔ یہ ہدایت حیوانات کو بھی عطا فرمائی۔ قَدَرٌ کا مفہوم ہے۔ اشیا کی جنسوں، ان کی انواع وصفات اور خصوصیات کا اندازہ فرما کر انسان کی بھی ان کی طرف رہنمائی فرما دی تاکہ انسان ان سے استفادہ کر سکے۔
اور جس نے تازه گھاس پیدا کی.*
____________________
* جسے جانور چرتے ہیں۔
پھر اس نے اس کو (سکھا کر) سیاه کوڑا کر دیا.*
____________________
* گھاس خشک ہو جائے تو اسے غُثَاءً کہتے ہیں، أَحْوَى سیاہ کر دیا۔ یعنی تازہ اور شاداب گھاس کو ہم سکھا کر سیاہ کوڑا بھی کر دیتے ہیں۔
ہم تجھے پڑھائیں گے پھر تو نہ بھولے گا.*
____________________
* حضرت جبرائیل (عليه السلام) وحی لے کر آتے تو آپ اسے جلدی جلدی پڑھتے تاکہ بھول نہ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس طرح جلدی نہ کریں۔ نازل شدہ وحی ہم آپ کو پڑھوائیں گے یعنی آپ کی زبان پر جاری کر دیں گے، پس آپ اسے بھولیں گے نہیں۔ مگر جسے اللہ چاہے گا، لیکن اللہ نے ایسا نہیں چاہا، اس لئے آپ کو سب کچھ یاد ہی رہا۔ بعض نے کہا کہ اس کا مفہوم ہے کہ جن کو اللہ منسوخ کرنا چاہے گا وہ آپ کو بھلوا دے گا۔ ( فتح القدیر ) ۔
مگر جو کچھ اللہ چاہے۔ وه ظاہر اور پوشیده کو جانتا ہے.*
____________________
* یہ عام ہے، جہر قرآن کا وہ حصہ بھی ہے جسے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) یاد کر لیں، اور جو آپ کے سینے سے محو کر دیا جائے، وہ مخفی ہے۔ اس طرح جہر اونچی آواز سےپڑھے، خفی پست آواز سےپڑھے، خفی، چھپ کر عمل کرے اور جہر ظاہر، ان سب کو اللہ جانتا ہے۔
ہم آپ کے لئے آسانی پیدا کر دیں گے.*
____________________
* یہ بھی عام ہے۔ مثلاً آپ پر وحی آسان کر دیں گے تاکہ اس کو یاد کرنا اور اس پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔ ہم آپ کی اس طریقے کی طرف رہنمائی کریں گے جو آسان ہوگا۔ ہم جنت والا عمل آپ کے لئے آسان کر دیں گے، ہم آپ کے لئے ایسے افعال واقوال آسان کر دیں گے جن میں خیر ہو اور ہم آپ کے لئے ایسی شریعت مقرر کریں گے، جو سہل، مستقیم اور متعدل ہوگی، جس میں کوئی کجی، عسر اور تنگی نہیں ہوگی۔
تو آپ نصیحت کرتے رہیں اگر نصیحت کچھ فائده دے.*
____________________
* یعنی وعظ ونصیحت وہاں کریں جہاں محسوس ہو کہ فائدہ مند ہوگی۔ یہ وعظ ونصیحت اور تعلیم کے لئے ایک اصول اور ادب بیان فرما دیا۔ ( ابن کثیر ) امام شوکانی کے نزدیک مفہوم یہ ہے کہ آپ نصیحت کرتے رہیں، چاہے فائدہ دے یا نہ دے۔ کیونکہ انذار وتبلیغ دونوں صورتوں میں آپ کے لئے ضروری تھی۔ یعنی أَوْ لَمْ تَنْفَعْ یہاں محذوف ہے۔
ڈرنے واﻻ تو نصیحت لے گا.*
____________________
* یعنی آپ کی نصیحت سے وہ یقیناً عبرت حاصل کریں گے جن کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوگا، ان میں خشیت الہیٰ اور اپنی اصلاح کا جذبہ مزید قوی ہو جائے گا۔
(ہاں) بد بخت اس سے گریز کرے گا.*
____________________
* یعنی اس نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے کیوں کہ ان کا کفر پر اصرار اور اللہ کی معصیتوں میں انہماک جاری رہتا ہے۔
جو بڑی آگ میں جائے گا.
جہاں پھر نہ وه مرے گا نہ جئےگا*، (بلکہ حالت نزع میں پڑا رہے گا).
____________________
* ان کے برعکس جو لوگ صرف اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے لئے عارضی طور پر جہنم میں رہ گئے ہوں گے انہیں اللہ تعالیٰ ایک طرح کی موت دے دے گا۔ حتیٰ کہ وہ آگ میں جل کر کوئلہ ہو جائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ انبیا وغیرہ کی سفارش سے ان کو گروہوں کی شکل میں نکالے گا، ان کو جنت کی نہر میں ڈالا جائے گا، جنتی بھی ان پر پانی ڈالیں گے، جس سے وہ اس طرح جی اٹھیں گے جیسے سیلاب کے کوڑے پردانہ اگ آتا ہے ۔ (صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب إثبات الشفاعة وإخراج الموحدين من النار)۔
بیشک اس نے فلاح پالی جو پاک ہوگیا.*
____________________
* جنہوں نے اپنے نفس کو اخلاق رذیلہ سے اور دلوں کو شرک ومعصیت کی آلودگی سے پاک کر لیا۔
اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پڑھتا رہا.
لیکن تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو.
اور آخرت بہت بہتر اور بہت بقا والی ہے.*
____________________
* کیوں کہ دنیا اور اس کی ہر چیز فانی ہے، جب کہ آخرت کی زندگی دائمی اور ابدی ہے، اس لئے عاقل فانی چیز کو باقی رہنے والی پر ترجیح نہیں دیتا۔
یہ باتیں پہلی کتابوں میں بھی ہیں.
(یعنی) ابراہیم اور موسیٰ کی کتابوں میں.
سورة الأعلى
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورة (الأعلى) من السُّوَر المكية، وقد افتُتحت بتنزيه الله عز وجل عن كلِّ نقص، وإثباتِ العلوِّ المطلق له سبحانه، وجاءت على أمثلةٍ من قدرة الله عز وجل في هذا الكون؛ طلبًا من المؤمن أن يُزكِّيَ نفسَه، ويلجأَ إلى خالق هذا الكونِ وحده، و(الأعلى) هو أحدُ أسماءِ الله الحسنى، وقد حرَصَ رسولُ الله صلى الله عليه وسلم على قراءتِها في غير موضع؛ كالجمعة، والعيدَينِ، والوتر.

ترتيبها المصحفي
87
نوعها
مكية
ألفاظها
72
ترتيب نزولها
8
العد المدني الأول
19
العد المدني الأخير
19
العد البصري
19
العد الكوفي
19
العد الشامي
19

* سورة (الأعلى):

سُمِّيت سورة (الأعلى) بهذا الاسم؛ لافتتاحها بقوله تعالى: {سَبِّحِ اْسْمَ رَبِّكَ اْلْأَعْلَى} [الأعلى: 1].

* وتُسمَّى كذلك بسورة {سَبِّحْ}؛ لافتتاحها بهذا اللفظ.

* أمَر رسولُ الله صلى الله عليه وسلم أن يُجعَل لفظُ أولِ آيةٍ من سورة (الأعلى) في السجود:

عن عُقْبةَ بن عامرٍ رضي الله عنه، قال: «لمَّا نزَلتْ: {فَسَبِّحْ بِاْسْمِ رَبِّكَ اْلْعَظِيمِ} [الواقعة: 96]، قال رسولُ اللهِ ﷺ: «اجعَلوها في ركوعِكم»، فلمَّا نزَلتْ: {سَبِّحِ اْسْمَ رَبِّكَ اْلْأَعْلَى} [الأعلى: 1]، قال: «اجعَلوها في سجودِكم»». أخرجه ابن حبان (١٨٩٨).

 حرَصَ رسولُ الله صلى الله عليه وسلم على قراءةِ سورة (الأعلى) في كثيرٍ من المواطن؛ من ذلك:

* في صلاة العِيدَينِ: عن سَمُرةَ بن جُنْدُبٍ رضي الله عنه، قال: «كان رسولُ اللهِ ﷺ يَقرأُ في العِيدَينِ بـ {سَبِّحِ اْسْمَ رَبِّكَ اْلْأَعْلَى}، و{هَلْ أَتَىٰكَ حَدِيثُ اْلْغَٰشِيَةِ}». أخرجه أحمد (٢٠١٦١).

* في صلاة الظُّهْرِ: عن جابرِ بن سَمُرةَ رضي الله عنه: «أنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلم كان يَقرأُ في الظُّهْرِ بـ {سَبِّحِ اْسْمَ رَبِّكَ اْلْأَعْلَى} ونحوِها، وفي الصُّبْحِ بأطوَلَ مِن ذلك». أخرجه مسلم (٤٦٠).

* في صلاة الوتر: عن عبدِ اللهِ بن عباسٍ رضي الله عنهما، قال: «كان رسولُ اللهِ ﷺ يُوتِرُ بثلاثٍ، يَقرأُ فيهنَّ في الأولى: بـ{سَبِّحِ اْسْمَ رَبِّكَ اْلْأَعْلَى}، وفي الثانيةِ: بـ{قُلْ يَٰٓأَيُّهَا اْلْكَٰفِرُونَ}، وفي الثالثةِ: بـ{قُلْ هُوَ اْللَّهُ أَحَدٌ}». أخرجه النسائي (١٧٠١).

* في صلاة الجمعة: عن سَمُرةَ بن جُنْدُبٍ رضي الله عنه: «أنَّ رسولَ اللهِ ﷺ كان يَقرأُ في صلاةِ الجمعة بـ{سَبِّحِ اْسْمَ رَبِّكَ اْلْأَعْلَى}، و{هَلْ أَتَىٰكَ حَدِيثُ اْلْغَٰشِيَةِ}». أخرجه أبو داود (١١٢٥).

1. تسبيح وتعظيم (١-٥).

2. تكليف وامتنان (٦-١٣).

3. الحديث عن أهل التذكُّر (١٤-١٩).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (9 /110).

يقول ابنُ عاشور عن مقاصدها: «اشتملت على تنزيهِ الله تعالى، والإشارة إلى وَحْدانيته؛ لانفراده بخَلْقِ الإنسان، وخلق ما في الأرض مما فيه بقاؤه.
وعلى تأييد النبي صلى الله عليه وسلم، وتثبيته على تَلقِّي الوحي.
وأنَّ اللهَ مُعطِيه شريعةً سَمْحة، وكتابًا يَتذكَّر به أهلُ النفوس الزكيَّة الذين يَخشَون ربهم، ويُعرِض عنهم أهلُ الشقاوة الذين يؤثِرون الحياة الدنيا، ولا يعبؤون بالحياة الأبدية.
وأن ما أوحيَ إليه يُصدِّقه ما في كتب الرسل من قبله؛ وذلك كلُّه تهوين لِما يَلقَاه من إعراض المشركين». "التحرير والتنوير" لابن عاشور (30 /272).