ترجمة سورة التوبة

محمد جوناگڑھی - Urdu translation

ترجمة معاني سورة التوبة باللغة الأردية من كتاب محمد جوناگڑھی - Urdu translation.

توبہ


اللہ اوراس کے رسول کی جانب سے بیزاری کا اعلان ہے۔ ان مشرکوں کے بارے میں جن سے تم نے عہد وپیمان کیا تھا

پس (اے مشرکو!) تم ملک میں چار مہینے تک تو چل پھر لو، جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور یہ (بھی یاد رہے) کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے واﻻ ہے

اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو بڑے حج کے دن صاف اطلاع ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے، اور اس کا رسول بھی، اگر اب بھی تم توبہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اگر تم روگردانی کرو تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرا نہیں سکتے۔ اور کافروں کو دکھ اور مار کی خبر پہنچا دیجئے

بجز ان مشرکوں کے جن سے تمہارا معاہده ہو چکا ہے اور انہوں نے تمہیں ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچایا نہ کسی کی تمہارے خلاف مدد کی ہے تو تم بھی ان کے معاہدے کی مدت ان کے ساتھ پوری کرو، اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے

پھر حرمت والے مہینوں کے گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو انہیں گرفتار کرو، ان کا محاصره کرلو اور ان کی تاک میں ہر گھاٹی میں جا بیٹھو، ہاں اگر وه توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوٰة ادا کرنے لگیں توتم ان کی راہیں چھوڑ دو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے

اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناه طلب کرے تو تو اسے پناه دے دے یہاں تک کہ وه کلام اللہ سن لے پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچا دے۔ یہ اس لئے کہ یہ لوگ بے علم ہیں

مشرکوں کے لئے عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کیسے ره سکتا ہے سوائے ان کے جن سے تم نے عہد وپیمان مسجد حرام کے پاس کیا ہے، جب تک وه لوگ تم سے معاہده نبھائیں تم بھی ان سے وفاداری کرو، اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت رکھتا ہے

ان کے وعدوں کا کیا اعتبار ان کا اگر تم پر غلبہ ہو جائے تو نہ یہ قرابت داری کا خیال کریں نہ عہدوپیمان کا، اپنی زبانوں سے تو تمہیں پرچا رہے ہیں لیکن ان کے دل نہیں مانتے ان میں سے اکثر تو فاسق ہیں

انہوں نے اللہ کی آیتوں کو بہت کم قیمت پر بیچ دیا اور اس کی راه سے روکا۔ بہت برا ہے جو یہ کر رہے ہیں

یہ تو کسی مسلمان کے حق میں کسی رشتہداری کا یا عہد کا مطلق لحاظ نہیں کرتے، یہ ہیں ہی حد سے گزرنے والے

اب بھی اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوٰة دیتے رہیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔ ہم تو جاننے والوں کے لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کر رہے ہیں

اگر یہ لوگ عہدوپیمان کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم بھی ان سرداران کفر سے بھڑ جاؤ۔ ان کی قسمیں کوئی چیز نہیں، ممکن ہے کہ اس طرح وه بھی باز آجائیں

تم ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے کیوں تیار نہیں ہوتے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور پیغمبر کو جلا وطن کرنے کی فکر میں ہیں اور خود ہی اول بار انہوں نے تم سے چھیڑ کی ہے، کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ ہی زیاده مستحق ہے کہ تم اس کا ڈر رکھو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو

ان سے تم جنگ کرو اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا، انہیں ذلیل ورسوا کرے گا، تمہیں ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا

اور ان کے دل کا غم وغصہ دور کرے گا، اور وه جس کی طرف چاہتا ہے رحمت سے توجہ فرماتا ہے۔ اللہ جانتا بوجھتا حکمت واﻻ ہے

کیا تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ تم چھوڑ دیئے جاؤ گے حاﻻنکہ اب تک اللہ نے تم میں سے انہیں ممتاز نہیں کیا جو مجاہد ہیں اور جنہوں نے اللہ کے اور اس کے رسول کے اور مومنوں کے سوا کسی کو دلی دوست نہیں بنایا۔ اللہ خوب خبردار ہے جو تم کر رہے ہو

ﻻئق نہیں کہ مشرک اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو آباد کریں۔ درآں حالیکہ وه خود اپنے کفر کے آپ ہی گواه ہیں، ان کے اعمال غارت واکارت ہیں، اور وه دائمی طور پر جہنمی ہیں

اللہ کی مسجدوں کی رونق وآبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں، نمازوں کے پابند ہوں، زکوٰة دیتے ہوں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں، توقع ہے کہ یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں

کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلا دینا اور مسجد حرام کی خدمت کرنا اس کے برابر کر دیا ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان ﻻئے اور اللہ کی راه میں جہاد کیا، یہ اللہ کے نزدیک برابر کے نہیں اور اللہ تعالیٰ ﻇالموں کو ہدایت نہیں دیتا

جو لوگ ایمان ﻻئے، ہجرت کی، اللہ کی راه میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کیا وه اللہ کے ہاں بہت بڑے مرتبہ والے ہیں، اور یہی لوگ مراد پانے والے ہیں

انہیں ان کا رب خوشخبری دیتا ہے اپنی رحمت کی اور رضامندی کی اور جنتوں کی، ان کے لئے وہاں دوامی نعمت ہے

وہاں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں اللہ کے پاس یقیناً بہت بڑے ﺛواب ہیں

اے ایمان والو! اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ اگر وه کفر کو ایمان سے زیاده عزیز رکھیں۔ تم میں سے جو بھی ان سے محبت رکھے گا وه پورا گنہگار ﻇالم ہے

آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکےاور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وه تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وه حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راه میں جہاد سے بھی زیاده عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے۔ اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا

یقیناً اللہ تعالیٰ نے بہت سے میدانوں میں تمہیں فتح دی ہے اور حنین کی لڑائی والے دن بھی جب کہ تمہیں اپنی کثرت پر ناز ہوگیا تھا، لیکن اس نے تمہیں کوئی فائده نہ دیا بلکہ زمین باوجود اپنی کشادگی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر مڑ گئے

پھر اللہ نے اپنی طرف کی تسکین اپنے نبی پر اور مومنوں پر اتاری اور اپنے وه لشکر بھیجے جنہیں تم دیکھ نہیں رہے تھے اور کافروں کو پوری سزا دی۔ ان کفار کا یہی بدلہ تھا

پھر اس کے بعد بھی جس پر چاہے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی توجہ فرمائے گا اللہ ہی بخشش ومہربانی کرنے واﻻ ہے

اے ایمان والو! بے شک مشرک بالکل ہی ناپاک ہیں وه اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں اگر تمہیں مفلسی کا خوف ہے تو اللہ تمہیں دولت مند کر دے گا اپنے فضل سے اگر چاہے اللہ علم وحکمت واﻻ ہے

ان لوگوں سے لڑو، جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں ﻻتے جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام کرده شے کو حرام نہیں جانتے، نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان لوگوں میں جنہیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وه ذلیل وخوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں

یہود کہتے ہیں عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ قول صرف ان کے منھ کی بات ہے۔ اگلے منکروں کی بات کی یہ بھی نقل کرنے لگے اللہ انہیں غارت کرے وه کیسے پلٹائے جاتے ہیں

ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو حاﻻنکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وه پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے

وه چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منھ سے بجھا دیں اور اللہ تعالیٰ انکاری ہے مگر اسی بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گو کافر نا خوش رہیں

اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے اور تمام مذہبوں پر غالب کر دے اگر چہ مشرک برا مانیں

اے ایمان والو! اکثر علما اور عابد، لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راه سے روک دیتے ہیں اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے

جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا کر رکھا تھا۔ پس اپنے خزانوں کا مزه چکھو

مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں باره کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے اس میں سے چار حرمت وادب کے ہیں۔ یہی درست دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ﻇلم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وه تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے

مہینوں کا آگے پیچھے کر دینا کفر کی زیادتی ہے اس سے وه لوگ گمراہی میں ڈالے جاتے ہیں جو کافر ہیں۔ ایک سال تو اسے حلال کر لیتے ہیں اور ایک سال اسی کو حرمت واﻻ کر لیتے ہیں، کہ اللہ نے جو حرمت رکھی ہے اس کے شمار میں تو موافقت کر لیں پھر اسے حلال بنا لیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے انہیں ان کے برے کام بھلے دکھادیئے گئے ہیں اور قوم کفار کی اللہ رہنمائی نہیں فرماتا

اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ چلو اللہ کے راستے میں کوچ کرو تو تم زمین سے لگے جاتے ہو۔ کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگانی پر ہی ریجھ گئے ہو۔ سنو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں کچھ یونہی سی ہے

اگر تم نے کوچ نہ کیا تو تمہیں اللہ تعالیٰ دردناک سزا دے گا اور تمہارے سوا اور لوگوں کو بدل ﻻئے گا، تم اللہ تعالی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے

اگر تم ان (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے (دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وه دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے، پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں، اس نے کافروں کی بات پست کر دی اور بلند وعزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے، اللہ غالب ہے حکمت واﻻ ہے

نکل کھڑے ہو جاؤ ہلکے پھلکے ہو تو بھی اور بھاری بھر کم ہو تو بھی، اور راه رب میں اپنی مال وجان سے جہاد کرو، یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم میں علم ہو

اگر جلد وصول ہونے واﻻ مال واسباب ہوتا اور ہلکا سفر ہوتا تو یہ ضرور آپ کے پیچھے ہو لیتے لیکن ان پر تو دوری اور دراز کی مشکل پڑ گئی۔ اب تو یہ اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم میں قوت وطاقت ہوتی تو ہم یقیناً آپ کے ساتھ نکلتے، یہ اپنی جانوں کو خود ہی ہلاکت میں ڈال رہے ہیں ان کے جھوٹا ہونے کا سچا علم اللہ کو ہے

اللہ تجھے معاف فرما دے، تو نے انہیں کیوں اجازت دے دی؟ بغیر اس کے کہ تیرے سامنے سچے لوگ کھل جائیں اور تو جھوٹے لوگوں کو بھی جان لے

اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ویقین رکھنے والے تو مالی اور جانی جہاد سے رک رہنے کی کبھی بھی تجھ سے اجازت طلب نہیں کریں گے، اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے

یہ اجازت تو تجھ سے وہی طلب کرتے ہیں جنہیں نہ اللہ پر ایمان ہے نہ آخرت کے دن کا یقین ہے جن کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں اور وه اپنے شک میں ہی سرگرداں ہیں

اگر ان کا اراده جہاد کے لئے نکلنے کا ہوتا تو وه اس سفر کے لئے سامان کی تیاری کر رکھتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا اس لئے انہیں حرکت سے ہی روک دیا اور کہہ دیا گیا کہ تم بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے ہی رہو

اگر یہ تم میں مل کر نکلتے بھی تو تمہارے لئے سوائے فساد کے اور کوئی چیز نہ بڑھاتے بلکہ تمہارے درمیان خوب گھوڑے دوڑا دیتے اور تم میں فتنے ڈالنے کی تلاش میں رہتے ان کے ماننے والے خود تم میں موجود ہیں، اور اللہ ان ﻇالموں کو خوب جانتا ہے

یہ تو اس سے پہلے بھی فتنے کی تلاش کرتے رہے ہیں اور تیرے لئے کاموں کو الٹ پلٹ کرتے رہے ہیں، یہاں تک کہ حق آپہنچا اور اللہ کا حکم غالب آگیا باوجودیکہ وه ناخوشی میں ہی رہے

ان میں سے کوئی تو کہتا ہے مجھے اجازت دیجئے مجھے فتنے میں نہ ڈالیئے، آگاه رہو وه تو فتنے میں پڑ چکے ہیں اور یقیناً دوزخ کافروں کو گھیر لینے والی ہے

آپ کو اگر کوئی بھلائی مل جائے تو انہیں برا لگتا ہے اور کوئی برائی پہنچ جائے تو یہ کہتے ہیں ہم نے تو اپنا معاملہ پہلے سے ہی درست کر لیا تھا، پھر تو بڑے ہی اتراتے ہوئے لوٹتے ہیں

آپ کہہ دیجئے کہ ہمیں سوائے اللہ کے ہمارے حق میں لکھے ہوئے کہ کوئی چیز پہنچ ہی نہیں سکتی وه ہمارا کار ساز اور مولیٰ ہے۔ مومنوں کو تو اللہ کی ذات پاک پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے۔

کہہ دیجئے کہ تم ہمارے بارے میں جس چیز کا انتظار کر رہے ہو وه دو بھلائیوں میں سے ایک ہے اور ہم تمہارے حق میں اس کا انتظار کرتے ہیں کہ یا تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے کوئی سزا تمہیں دے یا ہمارے ہاتھوں سے، پس ایک طرف تم منتظر رہو دوسری جانب تمہارے ساتھ ہم بھی منتظر ہیں

کہہ دیجئے کہ تم خوشی یاناخوشی کسی طرح بھی خرچ کرو قبول تو ہرگز نہ کیا جائے گا، یقیناً تم فاسق لوگ ہو

کوئی سبب ان کے خرچ کی قبولیت کے نہ ہونے کا اس کے سوا نہیں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور بڑی کاہلی سے ہی نماز کو آتے ہیں اور برے دل سے ہی خرچ کرتے ہیں

پس آپ کو ان کے مال واوﻻد تعجب میں نہ ڈال دیں۔ اللہ کی چاہت یہی ہے کہ اس سے انہیں دنیا کی زندگی میں ہی سزا دے اور ان کے کفر ہی کی حالت میں ان کی جانیں نکل جائیں

یہ اللہ کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ یہ تمہاری جماعت کے لوگ ہیں، حاﻻنکہ وه دراصل تمہارے نہیں بات صرف اتنی ہے کہ یہ ڈرپوک لوگ ہیں

اگر یہ کوئی بچاؤ کی جگہ یا کوئی غار یا کوئی بھی سر گھسانے کی جگہ پالیں تو ابھی اس طرح لگام توڑ کر الٹے بھاگ چھوٹیں

ان میں وه بھی ہیں جو خیراتی مال کی تقسیم کے بارے میں آپ پر عیب رکھتے ہیں، اگر انہیں اس میں سے مل جائے تو خوش ہیں اور اگر اس میں سے نہ ملا تو فوراً بگڑ کھڑے ہوئے

اگر یہ لوگ اللہ اور رسول کے دیئے ہوئے پر خوش رہتے اور کہہ دیتے کہ اللہ ہمیں کافی ہے اللہ ہمیں اپنے فضل سے دے گا اور اس کا رسول بھی، ہم تو اللہ کی ذات سے ہی توقع رکھنے والے ہیں

صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے اور اللہ کی راه میں اور راہرو مسافروں کے لئے، فرض ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم وحکمت واﻻ ہے

ان میں سے وه بھی ہیں جو پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کان کا کچا ہے، آپ کہہ دیجئے کہ وه کان تمہارے بھلے کے لئے ہے وه اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمانوں کی بات کا یقین کرتا ہے اور تم میں سے جو اہل ایمان ہیں یہ ان کے لئے رحمت ہے، رسول اللہ ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کو جو لوگ ایذا دیتے ہیں ان کے لئے دکھ کی مار ہے

محض تمہیں خوش کرنے کے لئے تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھا جاتے ہیں حاﻻنکہ اگر یہ ایمان دار ہوتے تو اللہ اور اس کا رسول رضامند کرنے کے زیاده مستحق تھے

کیا یہ نہیں جانتے کہ جو بھی اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گااس کے لئے یقیناً دوزخ کی آگ ہے جس میں وه ہمیشہ رہنے واﻻ ہے، یہ زبردست رسوائی ہے

منافقوں کو ہر وقت اس بات کا کھٹکا لگارہتا ہے کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی سورت نہ اترے جو ان کے دلوں کی باتیں انہیں بتلا دے۔ کہہ دیجئے کہ تم مذاق اڑاتے رہو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اسے ﻇاہر کرنے واﻻ ہے جس سے تم ڈر دبک رہے ہو

اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے ره گئے ہیں؟

تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے، اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کر لیں تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں گے

تمام منافق مرد وعورت آپس میں ایک ہی ہیں، یہ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بھلی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنی مٹھی بند رکھتے ہیں، یہ اللہ کو بھول گئے اللہ نے انہیں بھلا دیا۔ بیشک منافق ہی فاسق وبدکردار ہیں

اللہ تعالیٰ ان منافق مردوں، عورتوں اورکافروں سے جہنم کی آگ کا وعده کر چکا ہے جہاں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، وہی انہیں کافی ہے ان پر اللہ کی پھٹکار ہے، اور ان ہی کے لئے دائمی عذاب ہے

مثل ان لوگوں کے جو تم سے پہلے تھے، تم میں سے وه زیاده قوت والے تھے اور زیاده مال واوﻻد والے تھے پس وه اپنا دینی حصہ برت گئے پھر تم نے بھی اپنا حصہ برت لیا جیسے تم سے پہلے کے لوگ اپنے حصے سے فائده مند ہوئے تھے اور تم نے بھی اسی طرح مذاقانہ بحﺚ کی جیسے کہ انہوں نے کی تھی۔ ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں غارت ہوگئے۔ یہی لوگ نقصان پانے والے ہیں

کیا انہیں اپنے سے پہلے لوگوں کی خبریں نہیں پہنچیں، قوم نوح اور عاد اور ﺛمود اور قوم ابراہیم اور اہل مدین اور اہل مؤتفکات (الٹی ہوئی بستیوں کے رہنے والے) کی، ان کے پاس ان کے پیغمبر دلیلیں لے کر پہنچے، اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ﻇلم کرے بلکہ انہوں نے خود ہی اپنے اوپر ﻇلم کیا

مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں، وه بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجا ﻻتے ہیں زکوٰة ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے واﻻ حکمت واﻻ ہے

ان ایمان دار مردوں اور عورتوں سے اللہ نے ان جنتوں کا وعده فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں لہریں لے رہی ہیں جہاں وه ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ان صاف ستھرے پاکیزه محلات کا جو ان ہمیشگی والی جنتوں میں ہیں، اور اللہ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے، یہی زبردست کامیابی ہے

اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد جاری رکھو، اور ان پر سخت ہو جاؤ ان کی اصلی جگہ دوزخ ہے، جو نہایت بدترین جگہ ہے

یہ اللہ کی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے نہیں کہا، حاﻻنکہ یقیناً کفر کا کلمہ ان کی زبان سے نکل چکا ہے اور یہ اپنے اسلام کے بعد کافر ہوگئے ہیں اور انہوں نے اس کام کا قصد بھی کیا جو پورا نہ کر سکے۔ یہ صرف اسی بات کا انتقام لے رہے ہیں کہ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اور اس کے رسول ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ نے دولت مند کردیا، اگر یہ اب بھی توبہ کر لیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے، اور اگر منھ موڑے رہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں دنیا وآخرت میں دردناک عذاب دے گا اور زمین بھر میں ان کا کوئی حمایتی اور مددگار نہ کھڑا ہوگا

ان میں وه بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وه ہمیں اپنے فضل سے مال دے گا تو ہم ضرور صدقہ وخیرات کریں گے اور پکی طرح نیکو کاروں میں ہو جائیں گے

لیکن جب اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا تو یہ اس میں بخیلی کرنے لگے اور ٹال مٹول کرکے منھ موڑ لیا

پس اس کی سزا میں اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا اللہ سے ملنے کے دنوں تک، کیونکہ انہوں نے اللہ سے کئے ہوئے وعدے کا خلاف کیا اور کیوں کہ جھوٹ بولتے رہے

کیا وه نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے دل کا بھید اور ان کی سرگوشی سب معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ غیب کی تمام باتوں سے خبردار ہے

جولوگ ان مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جنہیں سوائے اپنی محنت مزدوری کے اور کچھ میسر ہی نہیں، پس یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں، اللہ بھی ان سے تمسخر کرتا ہے انہی کے لئے دردناک عذاب ہے

ان کے لئے تو استغفار کر یا نہ کر۔ اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لئے استغفار کرے تو بھی اللہ انہیں ہرگز نہ بخشے گا یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے کفر کیا ایسے فاسق لوگوں کو رب کریم ہدایت نہیں دیتا

پیچھے ره جانے والے لوگ رسول اللہ ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ کے جانے کے بعد اپنے بیٹھے رہنے پر خوش ہیں انہوں نے اللہ کی راه میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرنا ناپسند رکھا اور انہوں نے کہہ دیا کہ اس گرمی میں مت نکلو۔ کہہ دیجئے کہ دوزخ کی آگ بہت ہی سخت گرم ہے، کاش کہ وه سمجھتے ہوتے

پس انہیں چاہئے کہ بہت کم ہنسیں اور بہت زیاده روئیں بدلے میں اس کے جو یہ کرتے تھے

پس اگر اللہ تعالیٰ آپ کو ان کی کسی جماعت کی طرف لوٹا کر واپس لے آئے پھر یہ آپ سے میدان جنگ میں نکلنے کی اجازت طلب کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم میرے ساتھ ہرگز چل نہیں سکتے اور نہ میرے ساتھ تم دشمنوں سے لڑائی کر سکتے ہو۔ تم نے پہلی مرتبہ ہی بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا پس تم پیچھے ره جانے والوں میں ہی بیٹھے رہو

ان میں سے کوئی مر جائے تو آپ اس کے جنازے کی ہرگز نماز نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔ یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور مرتے دم تک بدکار بے اطاعت رہے ہیں

آپ کو ان کے مال واوﻻد کچھ بھی بھلے نہ لگیں! اللہ کی چاہت یہی ہے کہ انہیں ان چیزوں سے دنیوی سزا دے اور یہ اپنی جانیں نکلنے تک کافر ہی رہیں

جب کوئی سورت اتاری جاتی ہے تو اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو ان میں سے دولت مندوں کا ایک طبقہ آپ کے پاس آکر یہ کہہ کر رخصت لے لیتاہے کہ ہمیں تو بیٹھے رہنے والوں میں ہی چھوڑ دیجئے

یہ تو خانہ نشین عورتوں کاساتھ دینے پر ریجھ گئے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اب وه کچھ سمجھ عقل نہیں رکھتے

لیکن خود رسول اللہ اور اس کے ساتھ کے ایمان والے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں، یہی لوگ بھلائیوں والے ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں

انہی کے لئے اللہ نے وه جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے

بادیہ نشینوں میں سے عذر والے لوگ حاضر ہوئے کہ انہیں رخصت دے دی جائے اور وه بیٹھ رہے جنہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے جھوٹی باتیں بنائی تھیں۔ اب تو ان میں جتنے کفار ہیں انہیں دکھ دینے والی مار پہنچ کر رہے گی

ضعیفوں پر اور بیماروں پر اور ان پر جن کے پاس خرچ کرنے کو کچھ بھی نہیں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وه اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی کرتے رہیں۔ ایسے نیک کاروں پر الزام کی کوئی راه نہیں، اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت ورحمت واﻻ ہے

ہاں ان پر بھی کوئی حرج نہیں جو آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ انہیں سواری مہیا کر دیں تو آپ جواب دیتے ہیں کہ میں تو تمہاری سواری کے لئے کچھ بھی نہیں پاتا، تو وه رنج وغم سے اپنی آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے لوٹ جاتے ہیں کہ انہیں خرچ کرنے کے لئے کچھ بھی میسر نہیں

بیشک انہیں لوگوں پر راه الزام ہے جو باوجود دولتمند ہونے کے آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں۔ یہ خانہ نشین عورتوں کا ساتھ دینے پر خوش ہیں اور ان کے دلوں پر مہر خداوندی لگ چکی ہے جس سے وه محض بے علم ہو گئے ہیں

یہ لوگ تمہارے سامنے عذر پیش کریں گے جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے۔ آپ کہہ دیجئے کہ یہ عذر پیش مت کرو ہم کبھی تم کو سچا نہ سمجھیں گے، اللہ تعالیٰ ہم کو تمہاری خبر دے چکا ہے اور آئنده بھی اللہ اور اس کا رسول تمہاری کارگزاری دیکھ لیں گے پھر ایسے کے پاس لوٹائے جاؤ گے جو پوشیده اور ﻇاہر سب کا جاننے واﻻ ہے پھر وه تم کو بتادے گا جو کچھ تم کرتے تھے

ہاں وه اب تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھا جائیں گے جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تاکہ تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دو۔ سو تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دو۔ وه لوگ بالکل گندے ہیں اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے ان کاموں کے بدلے جنہیں وه کیا کرتے تھے

یہ اس لیے قسمیں کھائیں گے کہ تم ان سے راضی ہوجاؤ۔ سو اگر تم ان سے راضی بھی ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ تو ایسے فاسق لوگوں سے راضی نہیں ہوتا

دیہاتی لوگ کفر اور نفاق میں بہت ہی سخت ہیں اور ان کو ایسا ہونا ہی چاہئے کہ ان کو ان احکام کا علم نہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں اور اللہ بڑا علم واﻻ بڑی حکمت واﻻ ہے

اور ان دیہاتیوں میں سے بعض ایسے ہیں کہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو جرمانہ سمجھتے ہیں اور تم مسلمانوں کے واسطے برے وقت کے منتظر رہتے ہیں، برا وقت ان ہی پر پڑنے واﻻ ہے اور اللہ سننے واﻻ جاننے واﻻ ہے

اور بعض اہل دیہات میں ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو عنداللہ قرب حاصل ہونے کا ذریعہ اور رسول کی دعا کا ذریعہ بناتے ہیں، یاد رکھو کہ ان کا یہ خرچ کرنا بیشک ان کے لیے موجب قربت ہے، ان کو اللہ تعالیٰ ضرور اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت واﻻ بڑی رحمت واﻻ ہے

اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے

اور کچھ تمہارے گردوپیش والوں میں اور کچھ مدینے والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ ان کو نہیں جانتے، ان کو ہم جانتے ہیں ہم ان کو دہری سزا دیں گے، پھر وه بڑے بھاری عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے

اور کچھ اور لوگ ہیں جو اپنی خطا کے اقراری ہیں جنہوں نے ملے جلے عمل کیے تھے، کچھ بھلے اور کچھ برے۔ اللہ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت واﻻ بڑی رحمت واﻻ ہے

آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں اور ان کے لیے دعا کیجئے، بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجب اطمینان ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سنتا ہے خوب جانتا ہے

کیا ان کو یہ خبر نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور وہی صدقات کو قبول فرماتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے میں اور رحمت کرنے میں کامل ہے

کہہ دیجئے کہ تم عمل کیے جاؤ تمہارے عمل اللہ خود دیکھ لے گا اور اس کا رسول اور ایمان والے (بھی دیکھ لیں گے) اور ضرور تم کو ایسے کے پاس جانا ہے جو تمام چھپی اور کھلی چیزوں کا جاننے واﻻ ہے۔ سو وه تم کو تمہارا سب کیا ہوا بتلا دے گا

اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا معاملہ اللہ کے حکم آنے تک ملتوی ہے ان کو سزا دے گا یا ان کی توبہ قبول کرلے گا، اور اللہ خوب جاننے واﻻ ہے بڑا حکمت واﻻ ہے

اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے ان اغراض کے لیے مسجد بنائی ہے کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کی باتیں کریں اور ایمانداروں میں تفریق ڈالیں اور اس شخص کے قیام کا سامان کریں جو اس سے پہلے سے اللہ اور رسول کا مخالف ہے، اور قسمیں کھا جائیں گے کہ بجز بھلائی کے اور ہماری کچھ نیت نہیں، اور اللہ گواه ہے کہ وه بالکل جھوٹے ہیں

آپ اس میں کبھی کھڑے نہ ہوں۔ البتہ جس مسجد کی بنیاد اول دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے وه اس ﻻئق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں، اس میں ایسے آدمی ہیں کہ وه خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ خوب پاک ہونے والوں کو پسند کرتا ہے

پھر آیا ایسا شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ سے ڈرنے پر اور اللہ کی خوشنودی پر رکھی ہو، یا وه شخص، کہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد کسی گھاٹی کے کنارے پر جو کہ گرنے ہی کو ہو، رکھی ہو، پھر وه اس کو لے کر آتش دوزخ میں گر پڑے، اور اللہ تعالیٰ ایسے ﻇالموں کو سمجھ ہی نہیں دیتا

ان کی یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں شک کی بنیاد پر (کانٹا بن کر) کھٹکتی رہے گی، ہاں مگر ان کے دل ہی اگر پاش پاش ہوجائیں تو خیر، اور اللہ تعالیٰ بڑا علم واﻻ بڑی حکمت واﻻ ہے

بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔ وه لوگ اللہ کی راه میں لڑتے ہیں جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں، اس پر سچا وعده کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں اور اللہ سے زیاده اپنے عہد کو کون پورا کرنے واﻻ ہے، تو تم لوگ اپنی اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے خوشی مناؤ، اور یہ بڑی کامیابی ہے

وه ایسے ہیں جو توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزه رکھنے والے، (یا راه حق میں سفر کرنے والے) رکوع اور سجده کرنے والے، نیک باتوں کی تعلیم کرنے والے اور بری باتوں سے باز رکھنے والے اور اللہ کی حدوں کا خیال رکھنے والے ہیں اور ایسے مومنین کو آپ خوشخبری سنا دیجئے

پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وه رشتہدار ہی ہوں اس امر کے ﻇاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں

اور ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت مانگنا وه صرف وعده کے سبب سے تھا جو انہوں نے اس سے وعده کرلیا تھا۔ پھر جب ان پر یہ بات ﻇاہر ہوگئی کہ وه اللہ کا دشمن ہے تو وه اس سے محض بے تعلق ہوگئے، واقعی ابراہیم (علیہ السلام) بڑے نرم دل اور برد بار تھے

اور اللہ ایسا نہیں کرتا کہ کسی قوم کو ہدایت کر کے بعد میں گمراه کر دے جب تک کہ ان چیزوں کو صاف صاف نہ بتلادے جن سے وه بچیں بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے

بلاشبہ اللہ ہی کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین میں۔ وہی جلاتا اور مارتا ہے، اور تمہارا اللہ کے سوا نہ کوئی یار ہے اور نہ کوئی مدد گار ہے

اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین اور انصار کے حال پر بھی جنہوں نے ایسی تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا، اس کے بعد کہ ان میں سے ایک گروه کے دلوں میں کچھ تزلزل ہو چلا تھا۔ پھر اللہ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان سب پر بہت ہی شفیق مہربان ہے

اور تین شخصوں کے حال پر بھی جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ جب زمین باوجود اپنی فراخی کے ان پر تنگ ہونے لگی اور وه خود اپنی جان سے تنگ آگئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہیں پناه نہیں مل سکتی بجز اس کے کہ اسی کی طرف رجوع کیا جائے پھر ان کے حال پر توجہ فرمائی تاکہ وه آئنده بھی توبہ کرسکیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے واﻻ بڑا رحم واﻻ ہے

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو

مدینہ کے رہنے والوں کو اور جو دیہاتی ان کے گردوپیش ہیں ان کو یہ زیبا نہ تھا کہ رسول اللہ کو چھوڑ کر پیچھے ره جائیں اور نہ یہ کہ اپنی جان کو ان کی جان سے عزیز سمجھیں، یہ اس سبب سے کہ ان کو اللہ کی راه میں جو پیاس لگی اور جو تکان پہنچی اور جو بھوک لگی اور جو کسی ایسی جگہ چلے جو کفار کے لیے موجب غیﻆ ہوا ہو اور دشمنوں کی جو کچھ خبر لی، ان سب پر ان کے نام (ایک ایک) نیک کام لکھا گیا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ مخلصین کا اجر ضائع نہیں کرتا

اور جو کچھ چھوٹا بڑا انہوں نے خرچ کیا اور جتنے میدان ان کو طے کرنے پڑے، یہ سب بھی ان کے نام لکھا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کا اچھے سے اچھا بدلہ دے

اور مسلمانوں کو یہ نہ چاہئے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وه دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وه ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وه ڈر جائیں

اے ایمان والو! ان کفار سے لڑو جو تمہارے آس پاس ہیں اور ان کو تمہارے اندر سختی پانا چاہئے۔ اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کے ساتھ ہے

اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیاده کیا ہے، سو جو لوگ ایمان والے ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیاده کیا ہے اور وه خوش ہورہے ہیں

اور جن کے دلوں میں روگ ہے اس سورت نے ان میں ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی بڑھا دی اور وه حالت کفر ہی میں مر گئے

اور کیا ان کو نہیں دکھلائی دیتا کہ یہ لوگ ہر سال ایک بار یا دو بار کسی نہ کسی آفت میں پھنستے رہتے ہیں پھر بھی نہ توبہ کرتے اور نہ نصیحت قبول کرتے ہیں

اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے ہیں کہ تم کو کوئی دیکھتا تو نہیں پھر چل دیتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کا دل پھیر دیا ہے اس وجہ سے کہ وه بے سمجھ لوگ ہیں

تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف ﻻئے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں ایمان والوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں

پھر اگر رو گردانی کریں تو آپ کہہ دیجیئے کہ میرے لیے اللہ کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وه بڑے عرش کا مالک ہے
سورة التوبة
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورةُ (التَّوْبةِ) ارتبَطتِ ارتباطًا وثيقًا بسورة (الأنفال)، حتى ظنَّ بعضُ الصَّحابة أنهما سورةٌ واحدة؛ فقد أكمَلتِ الحديثَ عن أحكام الحرب والأَسْرى. وسُمِّيتْ بـ (الفاضحةِ)؛ لأنها فضَحتْ سرائرَ المنافقين، وأحوالَهم، وصفاتِهم. وقد نزَلتْ سورة (التَّوْبةِ) في غزوتَيْ (حُنَينٍ)، و(تَبُوكَ). وأعلَنتْ هذه السورةُ البراءةَ من الشركِ والمشركين وأفعالهم، وبيَّنتْ أحكامَ المواثيق والعهود مع المشركين، معلِنةً في خاتمتها التوبةَ على مَن تاب وتخلَّف من الصحابة - رضي الله عنهم - عن الغزوِ: {ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوٓاْۚ} [التوبة: 118].

ترتيبها المصحفي
9
نوعها
مدنية
ألفاظها
2505
ترتيب نزولها
113
العد المدني الأول
130
العد المدني الأخير
130
العد البصري
130
العد الكوفي
129
العد الشامي
130

تعلَّقتْ سورةُ (التوبة) بأحداثٍ كثيرة، وهي (الفاضحةُ)؛ لذا صحَّ في أسبابِ نزولها الكثيرُ؛ من ذلك:

* قوله تعالى: {أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ اْلْحَآجِّ وَعِمَارَةَ اْلْمَسْجِدِ اْلْحَرَامِ كَمَنْ ءَامَنَ بِاْللَّهِ وَاْلْيَوْمِ اْلْأٓخِرِ وَجَٰهَدَ فِي سَبِيلِ اْللَّهِۚ لَا يَسْتَوُۥنَ عِندَ اْللَّهِۗ وَاْللَّهُ لَا يَهْدِي اْلْقَوْمَ اْلظَّٰلِمِينَ} [التوبة: 19]:

عن النُّعمانِ بن بشيرٍ رضي الله عنهما، قال: «كنتُ عند مِنبَرِ رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فقال رجُلٌ: ما أُبالي ألَّا أعمَلَ عمَلًا بعد الإسلامِ إلا أن أَسقِيَ الحاجَّ، وقال آخَرُ: ما أُبالي ألَّا أعمَلَ عمَلًا بعد الإسلامِ إلا أن أعمُرَ المسجدَ الحرامَ، وقال آخَرُ: الجهادُ في سبيلِ اللهِ أفضَلُ ممَّا قُلْتم، فزجَرَهم عُمَرُ، وقال: لا تَرفَعوا أصواتَكم عند مِنبَرِ رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، وهو يومُ الجمعةِ، ولكن إذا صلَّيْتُ الجمعةَ دخَلْتُ فاستفتَيْتُه فيما اختلَفْتم فيه؛ فأنزَلَ اللهُ عز وجل: {أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ اْلْحَآجِّ} [التوبة: 19] الآيةَ إلى آخِرِها». أخرجه مسلم (١٨٧٩).

* قوله تعالى: {اْلَّذِينَ يَلْمِزُونَ اْلْمُطَّوِّعِينَ مِنَ اْلْمُؤْمِنِينَ فِي اْلصَّدَقَٰتِ وَاْلَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ} [التوبة: 79]:

عن أبي مسعودٍ عُقْبةَ بن عمرٍو رضي الله عنه، قال: «لمَّا نزَلتْ آيةُ الصَّدقةِ كنَّا نُحامِلُ، فجاءَ رجُلٌ فتصدَّقَ بشيءٍ كثيرٍ، فقالوا: مُرائي، وجاءَ رجُلٌ فتصدَّقَ بصاعٍ، فقالوا: إنَّ اللهَ لَغنيٌّ عن صاعِ هذا؛ فنزَلتِ: {اْلَّذِينَ يَلْمِزُونَ اْلْمُطَّوِّعِينَ مِنَ اْلْمُؤْمِنِينَ فِي اْلصَّدَقَٰتِ وَاْلَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ} [التوبة: 79] الآية». أخرجه البخاري (١٤١٥).

* قوله تعالى: {وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰٓ أَحَدٖ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدٗا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِۦٓۖ} [التوبة: 84]:

عن عبدِ اللهِ بنِ عُمَرَ رضي الله عنهما: «أنَّ عبدَ اللهِ بنَ أُبَيٍّ لمَّا تُوُفِّيَ جاءَ ابنُه إلى النبيِّ ﷺ، فقال: يا رسولَ اللهِ، أعطِني قميصَك أُكفِّنْهُ فيه، وصَلِّ عليه، واستغفِرْ له، فأعطاه النبيُّ ﷺ قميصَه، فقال: آذِنِّي أُصلِّي عليه، فآذَنَه، فلمَّا أراد أن يُصلِّيَ عليه جذَبَه عُمَرُ رضي الله عنه، فقال: أليس اللهُ نهاك أن تُصلِّيَ على المنافِقين؟ فقال: أنا بين خِيرَتَينِ، قال: {اْسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةٗ فَلَن يَغْفِرَ اْللَّهُ لَهُمْۚ} [التوبة: 80]، فصلَّى عليه؛ فنزَلتْ: {وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰٓ أَحَدٖ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدٗا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِۦٓۖ} [التوبة: 84]». أخرجه البخاري (١٢٦٩).

* قوله تعالى: {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَاْلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَن يَسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوٓاْ أُوْلِي قُرْبَىٰ مِنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَٰبُ اْلْجَحِيمِ} [التوبة: 113]:

عن المسيَّبِ بن حَزْنٍ رضي الله عنه، قال: «لمَّا حضَرتْ أبا طالبٍ الوفاةُ جاءَه رسولُ اللهِ ﷺ، فوجَدَ عنده أبا جهلٍ، وعبدَ اللهِ بنَ أبي أُمَيَّةَ بنِ المُغيرةِ، فقال رسولُ اللهِ ﷺ: «يا عَمِّ، قُلْ: لا إلهَ إلا اللهُ، كلمةً أشهَدُ لك بها عند اللهِ»، فقال أبو جهلٍ وعبدُ اللهِ بنُ أبي أُمَيَّةَ: يا أبا طالبٍ، أتَرغَبُ عن مِلَّةِ عبدِ المطَّلِبِ؟ فلَمْ يَزَلْ رسولُ اللهِ ﷺ يَعرِضُها عليه، ويُعِيدُ له تلك المقالةَ، حتى قال أبو طالبٍ آخِرَ ما كلَّمهم: هو على مِلَّةِ عبدِ المطَّلِبِ، وأبى أن يقولَ: لا إلهَ إلا اللهُ، فقال رسولُ اللهِ ﷺ: «أمَا واللهِ لَأستغفِرَنَّ لك ما لم أُنْهَ عنك»؛ فأنزَلَ اللهُ عز وجل: {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَاْلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَن يَسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوٓاْ أُوْلِي قُرْبَىٰ مِنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَٰبُ اْلْجَحِيمِ} [التوبة: 113]». أخرجه مسلم (٢٤).

* قوله تعالى: {وَعَلَى اْلثَّلَٰثَةِ اْلَّذِينَ خُلِّفُواْ حَتَّىٰٓ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ اْلْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوٓاْ أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اْللَّهِ إِلَّآ إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوٓاْۚ إِنَّ اْللَّهَ هُوَ اْلتَّوَّابُ اْلرَّحِيمُ} [التوبة: 118]:

نزَلتْ في (كعبِ بن مالكٍ)، و(مُرَارةَ بنِ الرَّبيعِ)، و(هلالِ بنِ أُمَيَّةَ).

والحديثُ يَروِيه عبدُ اللهِ بن كعبٍ، عن أبيه كعبِ بن مالكٍ رضي الله عنه، قال: «لم أتخلَّفْ عن رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم في غزوةٍ غزاها قطُّ، إلا في غزوةِ تَبُوكَ، غيرَ أنِّي قد تخلَّفْتُ في غزوةِ بَدْرٍ، ولم يُعاتِبْ أحدًا تخلَّفَ عنه، إنَّما خرَجَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم والمسلمون يُريدون عِيرَ قُرَيشٍ، حتى جمَعَ اللهُ بَيْنهم وبين عدوِّهم على غيرِ ميعادٍ، ولقد شَهِدتُّ مع رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم ليلةَ العَقَبةِ، حِينَ تواثَقْنا على الإسلامِ، وما أُحِبُّ أنَّ لي بها مَشهَدَ بَدْرٍ، وإن كانت بَدْرٌ أذكَرَ في الناسِ منها، وكان مِن خَبَري حِينَ تخلَّفْتُ عن رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم في غزوةِ تَبُوكَ: أنِّي لم أكُنْ قطُّ أقوى ولا أيسَرَ منِّي حِينَ تخلَّفْتُ عنه في تلك الغزوةِ، واللهِ ما جمَعْتُ قَبْلها راحلتَينِ قطُّ، حتى جمَعْتُهما في تلك الغزوةِ، فغزَاها رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم في حَرٍّ شديدٍ، واستقبَلَ سفَرًا بعيدًا ومَفازًا، واستقبَلَ عدوًّا كثيرًا، فجَلَا للمسلمين أمْرَهم لِيتأهَّبوا أُهْبةَ غَزْوِهم، فأخبَرَهم بوجهِهم الذي يريدُ، والمسلمون مع رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم كثيرٌ، ولا يَجمَعُهم كتابٌ حافظٌ، يريدُ بذلك الدِّيوانَ، قال كعبٌ: فقَلَّ رجُلٌ يريدُ أن يَتغيَّبَ، يظُنُّ أنَّ ذلك سيَخفَى له، ما لم يَنزِلْ فيه وَحْيٌ مِن اللهِ عز وجل، وغزَا رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم تلك الغزوةَ حِينَ طابتِ الثِّمارُ والظِّلالُ، فأنا إليها أصعَرُ، فتجهَّزَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم والمسلمون معه، وطَفِقْتُ أغدو لكي أتجهَّزَ معهم، فأرجِعُ ولم أقضِ شيئًا، وأقولُ في نفسي: أنا قادرٌ على ذلك إذا أرَدتُّ، فلم يَزَلْ ذلك يَتمادى بي حتى استمَرَّ بالناسِ الجِدُّ، فأصبَحَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم غاديًا والمسلمون معه، ولم أقضِ مِن جَهازي شيئًا، ثم غدَوْتُ فرجَعْتُ ولم أقضِ شيئًا، فلم يَزَلْ ذلك يَتمادى بي حتى أسرَعوا، وتفارَطَ الغَزْوُ، فهمَمْتُ أن أرتحِلَ فأُدرِكَهم، فيا لَيْتني فعَلْتُ، ثم لم يُقدَّرْ ذلك لي، فطَفِقْتُ إذا خرَجْتُ في الناسِ بعد خروجِ رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم يحزُنُني أنِّي لا أرى لي أُسْوةً إلا رجُلًا مغموصًا عليه في النِّفاقِ، أو رجُلًا ممَّن عذَرَ اللهُ مِن الضُّعفاءِ، ولم يذكُرْني رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم حتى بلَغَ تَبُوكَ، فقال وهو جالسٌ في القومِ بتَبُوكَ: «ما فعَلَ كعبُ بنُ مالكٍ؟»، قال رجُلٌ مِن بَني سَلِمةَ: يا رسولَ اللهِ، حبَسَه بُرْداه والنَّظرُ في عِطْفَيهِ، فقال له مُعاذُ بنُ جبلٍ: بئسَ ما قلتَ، واللهِ يا رسولَ اللهِ، ما عَلِمْنا عليه إلا خيرًا، فسكَتَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فبينما هو على ذلك، رأى رجُلًا مُبيِّضًا، يزُولُ به السَّرابُ، فقال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «كُنْ أبا خَيْثمةَ»، فإذا هو أبو خَيْثمةَ الأنصاريُّ، وهو الذي تصدَّقَ بصاعِ التَّمْرِ حِينَ لمَزَه المنافِقون».

فقال كعبُ بن مالكٍ: فلمَّا بلَغَني أنَّ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قد توجَّهَ قافلًا مِن تَبُوكَ، حضَرَني بَثِّي، فطَفِقْتُ أتذكَّرُ الكَذِبَ وأقولُ: بِمَ أخرُجُ مِن سَخَطِه غدًا؟ وأستعينُ على ذلك كلَّ ذي رأيٍ مِن أهلي، فلمَّا قيل لي: إنَّ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قد أظَلَّ قادمًا، زاحَ عنِّي الباطلُ، حتى عرَفْتُ أنِّي لن أنجوَ منه بشيءٍ أبدًا، فأجمَعْتُ صِدْقَه، وصبَّحَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم قادمًا، وكان إذا قَدِمَ مِن سَفَرٍ، بدَأَ بالمسجدِ فركَعَ فيه ركعتَينِ، ثم جلَسَ للناسِ، فلمَّا فعَلَ ذلك جاءه المخلَّفون، فطَفِقوا يَعتذِرون إليه، ويَحلِفون له، وكانوا بِضْعةً وثمانين رجُلًا، فقَبِلَ منهم رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم علانيتَهم، وبايَعَهم، واستغفَرَ لهم، ووكَلَ سرائرَهم إلى اللهِ، حتى جئتُ، فلمَّا سلَّمْتُ تبسَّمَ تبسُّمَ المُغضَبِ، ثم قال: «تعالَ»، فجئتُ أمشي حتى جلَسْتُ بين يدَيهِ، فقال لي: «ما خلَّفَك؟ ألم تكُنْ قد ابتَعْتَ ظَهْرَك؟»، قال: قلتُ: يا رسولَ اللهِ، إنِّي واللهِ لو جلَسْتُ عند غيرِك مِن أهلِ الدُّنيا، لَرأَيْتُ أنِّي سأخرُجُ مِن سَخَطِه بعُذْرٍ، ولقد أُعطِيتُ جدَلًا، ولكنِّي واللهِ لقد عَلِمْتُ، لَئِنْ حدَّثْتُك اليومَ حديثَ كَذِبٍ تَرضَى به عنِّي، لَيُوشِكَنَّ اللهُ أن يُسخِطَك عليَّ، ولَئِنْ حدَّثْتُك حديثَ صِدْقٍ تجدُ عليَّ فيه، إنِّي لَأرجو فيه عُقْبى اللهِ، واللهِ ما كان لي عُذْرٌ، واللهِ ما كنتُ قطُّ أقوى ولا أيسَرَ منِّي حين تخلَّفْتُ عنك، قال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «أمَّا هذا فقد صدَقَ؛ فقُمْ حتى يَقضِيَ اللهُ فيك»، فقُمْتُ، وثارَ رجالٌ مِن بَني سَلِمةَ فاتَّبَعوني، فقالوا لي: واللهِ ما عَلِمْناك أذنَبْتَ ذَنْبًا قبل هذا، لقد عجَزْتَ في ألَّا تكونَ اعتذَرْتَ إلى رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم بما اعتذَرَ به إليه المخلَّفون، فقد كان كافيَك ذَنْبَك استغفارُ رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم لك، قال: فواللهِ ما زالوا يُؤنِّبوني حتى أرَدتُّ أن أرجِعَ إلى رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم فأُكذِّبَ نفسي، قال: ثم قلتُ لهم: هل لَقِيَ هذا معي مِن أحدٍ؟ قالوا: نَعم، لَقِيَه معك رجُلانِ، قالا مِثْلَ ما قلتَ، فقيل لهما مثلُ ما قيل لك، قال: قلتُ: مَن هما؟ قالوا: مُرَارةُ بنُ الرَّبيعِ العامريُّ، وهِلالُ بنُ أُمَيَّةَ الواقِفيُّ، قال: فذكَروا لي رجُلَينِ صالحَينِ قد شَهِدا بَدْرًا، فيهما أُسْوةٌ، قال: فمضَيْتُ حين ذكَروهما لي.

قال: ونهَى رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم المسلمين عن كلامِنا - أيُّها الثلاثةُ - مِن بَيْنِ مَن تخلَّفَ عنه.

قال: فاجتنَبَنا الناسُ، وقال: تغيَّروا لنا، حتى تنكَّرتْ لي في نفسي الأرضُ، فما هي بالأرضِ التي أعرِفُ، فلَبِثْنا على ذلك خَمْسين ليلةً، فأمَّا صاحبايَ فاستكانا وقعَدا في بيوتِهما يَبكيانِ، وأمَّا أنا فكنتُ أشَبَّ القومِ وأجلَدَهم، فكنتُ أخرُجُ فأشهَدُ الصَّلاةَ، وأطُوفُ في الأسواقِ، ولا يُكلِّمُني أحدٌ، وآتي رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم فأُسلِّمُ عليه وهو في مَجلِسِه بعد الصَّلاةِ، فأقولُ في نفسي: هل حرَّكَ شَفَتَيهِ برَدِّ السلامِ أم لا؟ ثم أُصلِّي قريبًا منه، وأُسارِقُه النَّظرَ، فإذا أقبَلْتُ على صلاتي نظَرَ إليَّ، وإذا التفَتُّ نحوَه أعرَضَ عنِّي، حتى إذا طالَ ذلك عليَّ مِن جَفْوةِ المسلمين، مشَيْتُ حتى تسوَّرْتُ جدارَ حائطِ أبي قَتادةَ، وهو ابنُ عَمِّي، وأحَبُّ الناسِ إليَّ، فسلَّمْتُ عليه، فواللهِ ما رَدَّ عليَّ السلامَ، فقلتُ له: يا أبا قَتادةَ، أنشُدُك باللهِ هل تَعلَمَنَّ أنِّي أُحِبُّ اللهَ ورسولَه؟ قال: فسكَتَ، فعُدتُّ فناشَدتُّه، فسكَتَ، فعُدتُّ فناشَدتُّه، فقال: اللهُ ورسولُهُ أعلَمُ، ففاضت عينايَ، وتولَّيْتُ حتى تسوَّرْتُ الجدارَ.

فبَيْنا أنا أمشي في سوقِ المدينةِ، إذا نَبَطيٌّ مِن نََبَطِ أهلِ الشامِ، ممَّن قَدِمَ بالطعامِ يَبِيعُه بالمدينةِ، يقولُ: مَن يدُلُّ على كعبِ بن مالكٍ؟ قال: فطَفِقَ الناسُ يُشيرون له إليَّ، حتى جاءَني، فدفَعَ إليَّ كتابًا مِن مَلِكِ غسَّانَ، وكنتُ كاتبًا، فقرَأْتُه، فإذا فيه: أمَّا بعدُ، فإنَّه قد بلَغَنا أنَّ صاحِبَك قد جفَاك، ولم يَجعَلْك اللهُ بدارِ هوانٍ ولا مَضِيعةٍ، فالحَقْ بنا نُواسِك، قال: فقلتُ حين قرَأْتُها: وهذه أيضًا مِن البلاءِ، فتيامَمْتُ بها التَّنُّورَ، فسجَرْتُها بها.

حتى إذا مضَتْ أربعون مِن الخَمْسين، واستلبَثَ الوَحْيُ؛ إذا رسولُ رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم يأتيني، فقال: إنَّ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يأمُرُك أن تعتزِلَ امرأتَك، قال: فقلتُ: أُطلِّقُها أم ماذا أفعَلُ؟ قال: لا، بل اعتزِلْها، فلا تَقرَبَنَّها، قال: فأرسَلَ إلى صاحِبَيَّ بمِثْلِ ذلك، قال: فقلتُ لامرأتي: الحَقِي بأهلِكِ فكُوني عندهم حتى يَقضِيَ اللهُ في هذا الأمرِ، قال: فجاءت امرأةُ هلالِ بنِ أُمَيَّةَ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فقالت له: يا رسولَ اللهِ، إنَّ هلالَ بنَ أُمَيَّةَ شيخٌ ضائعٌ ليس له خادمٌ، فهل تَكرَهُ أن أخدُمَه؟ قال: لا، ولكن لا يَقرَبَنَّكِ، فقالت: إنَّه واللهِ ما به حركةٌ إلى شيءٍ، وواللهِ ما زالَ يَبكي منذ كان مِن أمرِه ما كان إلى يومِه هذا، قال: فقال لي بعضُ أهلي: لو استأذَنْتَ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم في امرأتِك؟ فقد أَذِنَ لامرأةِ هلالِ بنِ أُمَيَّةَ أن تخدُمَه، قال: فقلتُ: لا أستأذِنُ فيها رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم، وما يُدرِيني ماذا يقولُ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم إذا استأذَنْتُه فيها، وأنا رجُلٌ شابٌّ، قال: فلَبِثْتُ بذلك عَشْرَ ليالٍ، فكمَلَ لنا خمسون ليلةً مِن حِينَ نُهِيَ عن كلامِنا، قال: ثم صلَّيْتُ صلاةَ الفجرِ صباحَ خَمْسين ليلةً على ظَهْرِ بيتٍ مِن بيوتِنا، فبَيْنا أنا جالسٌ على الحالِ التي ذكَرَ اللهُ عز وجل منَّا، قد ضاقَتْ عليَّ نفسي، وضاقَتْ عليَّ الأرضُ بما رحُبَتْ؛ سَمِعْتُ صوتَ صارخٍ أوفَى على سَلْعٍ، يقولُ بأعلى صوتِه: يا كعبُ بنَ مالكٍ، أبشِرْ، قال: فخرَرْتُ ساجدًا، وعرَفْتُ أنْ قد جاء فَرَجٌ.

قال: فآذَنَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم الناسَ بتوبةِ اللهِ علينا حِينَ صلَّى صلاةَ الفجرِ، فذهَبَ الناسُ يُبشِّروننا، فذهَبَ قِبَلَ صاحَبَيَّ مبشِّرون، وركَضَ رجُلٌ إليَّ فرَسًا، وسعى ساعٍ مِن أسلَمَ قِبَلي، وأوفى الجبلَ، فكان الصوتُ أسرَعَ مِن الفرَسِ، فلمَّا جاءني الذي سَمِعْتُ صوتَه يُبشِّرُني، فنزَعْتُ له ثَوْبَيَّ، فكسَوْتُهما إيَّاه ببِشارتِه، واللهِ ما أملِكُ غيرَهما يومَئذٍ، واستعَرْتُ ثَوْبَيْنِ فلَبِسْتُهما، فانطلَقْتُ أتأمَّمُ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم، يَتلقَّاني الناسُ فوجًا فوجًا، يُهنِّئوني بالتوبةِ، ويقولون: لِتَهْنِئْكُ توبةُ اللهِ عليك، حتى دخَلْتُ المسجدَ، فإذا رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم جالسٌ في المسجدِ، وحَوْله الناسُ، فقام طَلْحةُ بنُ عُبَيدِ اللهِ يُهَروِلُ حتى صافَحَني وهنَّأني، واللهِ ما قامَ رجُلٌ مِن المهاجِرين غيرُه.

قال: فكان كعبٌ لا يَنساها لطَلْحةَ.

قال كعبٌ: فلمَّا سلَّمْتُ على رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، قال وهو يبرُقُ وجهُه مِن السُّرورِ، ويقولُ: «أبشِرْ بخيرِ يومٍ مَرَّ عليك منذُ ولَدَتْك أمُّك»، قال: فقلتُ: أمِنْ عندِك يا رسولَ اللهِ، أم مِن عندِ اللهِ؟ فقال: «لا، بل مِن عندِ اللهِ»، وكان رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم إذا سُرَّ استنارَ وجهُه، كأنَّ وَجْهَه قطعةُ قمَرٍ، قال: وكنَّا نَعرِفُ ذلك.

قال: فلمَّا جلَسْتُ بين يدَيهِ، قلتُ: يا رسولَ اللهِ، إنَّ مِن تَوْبتي أن أنخلِعَ مِن مالي صدقةً إلى اللهِ، وإلى رسولِه صلى الله عليه وسلم، فقال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «أمسِكْ بعضَ مالِك؛ فهو خيرٌ لك»، قال: فقلتُ: فإنِّي أُمسِكُ سَهْمي الذي بخَيْبرَ.

قال: وقلتُ: يا رسولَ اللهِ، إنَّ اللهَ إنَّما أنجاني بالصِّدْقِ، وإنَّ مِن تَوْبتي ألَّا أُحدِّثَ إلا صِدْقًا ما بَقِيتُ.

قال: فواللهِ ما عَلِمْتُ أنَّ أحدًا مِن المسلمين أبلاه اللهُ في صِدْقِ الحديثِ، منذُ ذكَرْتُ ذلك لرسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم إلى يومي هذا، أحسَنَ ممَّا أبلاني اللهُ به، واللهِ ما تعمَّدتُّ كَذْبةً منذُ قلتُ ذلك لرسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم إلى يومي هذا، وإنِّي لأرجو أن يَحفَظَني اللهُ فيما بَقِيَ.

قال: فأنزَلَ اللهُ عز وجل: {لَّقَد تَّابَ اْللَّهُ عَلَى اْلنَّبِيِّ وَاْلْمُهَٰجِرِينَ وَاْلْأَنصَارِ اْلَّذِينَ اْتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ اْلْعُسْرَةِ مِنۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٖ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْۚ إِنَّهُۥ بِهِمْ رَءُوفٞ رَّحِيمٞ ١١٧ وَعَلَى اْلثَّلَٰثَةِ اْلَّذِينَ خُلِّفُواْ حَتَّىٰٓ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ اْلْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ} [التوبة: 117-118] حتى بلَغَ: {يَٰٓأَيُّهَا اْلَّذِينَ ءَامَنُواْ اْتَّقُواْ اْللَّهَ وَكُونُواْ مَعَ اْلصَّٰدِقِينَ} [التوبة: 119].

قال كعبٌ: واللهِ ما أنعَمَ اللهُ عليَّ مِن نعمةٍ قطُّ، بعد إذ هداني اللهُ للإسلامِ، أعظَمَ في نفسي مِن صِدْقي رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم، ألَّا أكونَ كذَبْتُه فأهلِكَ كما هلَكَ الذين كذَبوا؛ إنَّ اللهَ قال لِلَّذين كذَبُوا حِينَ أنزَلَ الوَحْيَ شرَّ ما قال لأحدٍ، وقال اللهُ: {سَيَحْلِفُونَ ‌بِاْللَّهِ ‌لَكُمْ إِذَا اْنقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُواْ عَنْهُمْۖ فَأَعْرِضُواْ عَنْهُمْۖ إِنَّهُمْ رِجْسٞۖ وَمَأْوَىٰهُمْ جَهَنَّمُ جَزَآءَۢ بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ ٩٥ يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْاْ عَنْهُمْۖ فَإِن تَرْضَوْاْ عَنْهُمْ فَإِنَّ اْللَّهَ لَا يَرْضَىٰ عَنِ اْلْقَوْمِ اْلْفَٰسِقِينَ} [التوبة: 95-96].

قال كعبٌ: كنَّا خُلِّفْنا - أيُّها الثلاثةُ - عن أمرِ أولئك الذين قَبِلَ منهم رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ حلَفوا له، فبايَعَهم، واستغفَرَ لهم، وأرجأَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم أمْرَنا حتى قضى اللهُ فيه، فبذلك قال اللهُ عز وجل: {وَعَلَى ‌اْلثَّلَٰثَةِ ‌اْلَّذِينَ ‌خُلِّفُواْ} [التوبة: 118]، وليس الذي ذكَرَ اللهُ ممَّا خُلِّفْنا تخلُّفَنا عن الغَزْوِ، وإنَّما هو تخليفُه إيَّانا، وإرجاؤُه أمْرَنا عمَّن حلَفَ له واعتذَرَ إليه فقَبِلَ منه». أخرجه مسلم (٢٧٦٩).

* سورةُ (التوبة):

سُمِّيتْ بذلك لكثرةِ ذِكْرِ التوبة وتَكْرارها فيها، وذِكْرِ توبة الله على الثلاثة الذين تخلَّفوا يومَ غزوة (تَبُوكَ)، ولها عِدَّةُ أسماءٍ؛ من ذلك:

* سورةُ (براءةَ):

وقد اشتهَر هذا الاسمُ بين الصحابة؛ فعن البَراء رضي الله عنه، قال: «آخِرُ سورةٍ نزَلتْ كاملةً براءةُ». أخرجه البخاري (٤٣٦٤).

* (الفاضحةُ):

فعن سعيدِ بن جُبَيرٍ رحمه الله، قال: «قلتُ لابنِ عباسٍ: سورةُ التَّوبةِ، قال: آلتَّوبةُ؟ قال: بل هي الفاضحةُ؛ ما زالت تَنزِلُ: {وَمِنْهُمْ} {وَمِنْهُمْ} حتى ظَنُّوا أن لا يَبقَى منَّا أحدٌ إلا ذُكِرَ فيها». أخرجه مسلم (٣٠٣١).

قال ابنُ عاشورٍ: «ولهذه السورةِ أسماءٌ أُخَرُ، وقَعتْ في كلام السلف، من الصحابة والتابعين؛ فرُوي عن ابن عمرَ، عن ابن عباسٍ: كنَّا ندعوها - أي سورةَ (براءةَ) -: «المُقَشقِشَة» - بصيغةِ اسم الفاعل وتاء التأنيث، مِن قَشْقَشَه: إذا أبرَاه مِن المرضِ -، كان هذا لقبًا لها ولسورة (الكافرون)؛ لأنهما تُخلِّصان مَن آمن بما فيهما من النفاق والشرك؛ لِما فيهما من الدعاء إلى الإخلاص، ولِما فيهما من وصفِ أحوال المنافقين ...

وعن حُذَيفةَ: أنه سمَّاها سورة (العذاب)؛ لأنها نزلت بعذاب الكفار؛ أي: عذاب القتلِ والأخذِ حين يُثقَفون.

وعن عُبَيد بن عُمَير: أنه سمَّاها (المُنقِّرة) - بكسرِ القاف مشدَّدةً -؛ لأنها نقَّرتْ عما في قلوب المشركين...». "التحرير والتنوير" (10 /96).

وقد بلغ عددُ أسمائها (21) اسمًا في موسوعة "التفسير الموضوعي" (3 /187 وما بعدها).

* أمَر عُمَرُ بن الخطَّابِ رضي الله عنه أن يَتعلَّمَها الرِّجالُ لِما فيها من أحكام الجهاد:

فقد كتَب عُمَرُ بنُ الخطَّابِ رضي الله عنه: «تعلَّمُوا سورةَ براءةَ، وعَلِّموا نساءَكم سورةَ النُّورِ». "فضائل القرآن" للقاسم بن سلَّام (ص241).

جاءت موضوعاتُ سورة (التَّوبة) على الترتيب الآتي:

1. نبذُ العهد مع المشركين (١-٢٤).

2. غزوة (حُنَين) (٢٥-٢٧).

3. قتال أهل الكتاب لفساد عقيدتهم (٢٨-٣٥).

4. تحديد الأشهُرِ الحُرُم (٣٦-٣٧).

5. غزوة تَبُوكَ (٣٨- ١٢٧).

6. صفات المؤمنين، وعقدُ البَيْعة مع الله تعالى.

7. أنواع المنافقين، والمعذِّرون من الأعراب.

8. صفات المنافقين والمؤمنين، وجزاؤهم.

9. أصناف أهل الزكاة.

10. فضحُ المتخلِّفين عن الجهاد، وصفاتهم.

11. النفير العام، والجهاد في سبيل الله.

12. علوُّ مكانة النبيِّ عليه السلام (١٢٨-١٢٩).

ينظر: "التفسير الموضوعي" لمجموعة من العلماء (3 /178).

إنَّ مقصدَ السورة الأعظم أبانت عنه أولُ كلمةٍ في السورة؛ وهي {بَرَآءَةٞ} [التوبة: 1]؛ فقد جاءت للبراءةِ من الشرك والمشركين، ومعاداةِ مَن أعرض عما دعَتْ إليه السُّوَرُ الماضية؛ مِن اتباعِ الداعي إلى الله في توحيده، واتباعِ ما يُرضيه، كما جاءت بموالاةِ مَن أقبل على الله تعالى، وأعلن توبته؛ كما حصَل مع الصحابة الذين تخلَّفوا عن الغزوِ، ثم تاب اللهُ عليهم ليتوبوا.

ينظر: "مصاعد النظر للإشراف على مقاصد السور" للبقاعي (2 /154).