ترجمة سورة العاديات

الترجمة الأردية

ترجمة معاني سورة العاديات باللغة الأردية من كتاب الترجمة الأردية.
من تأليف: محمد إبراهيم جوناكري .

ہانپتے ہوئے دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم!*
____________________
* عَادِيَاتٌ، عَادِيَةٌ کی جمع ہے۔ یہ عَدُوٌّ سے ہے جیسے غَزْوٌ ہے۔ غَازِيَاتٌ کی طرح اس کے واو کو بھی یا سے بدل دیاگیا ہے۔ تیز رو گھوڑے۔ ضَبْحٌ کے معنی بعض کے نزدیک ہانپنا اور بعض کے نزدیک ہنہنانا ہے۔ مراد وہ گھوڑے ہیں جو ہانپتے یا ہنہناتے ہوئےجہاد میں تیزی سے دشمن کی طرف دوڑتے ہیں
پھر ٹاپ مار کر آگ جھاڑنے والوں کی قسم!*
____________________
* مُورِيَاتٌ، إِيرَاءُ سے ہے۔ آگ نکالنے والے۔ قَدْحٌ کے معنی ہیں۔ صَكٌّ چلنے میں گھٹنوں یا ایڑیوں کا ٹکرانا، یا ٹاپ مارنا۔ اسی سے قَدْحٌ بِالزِّنَادِ ہے۔ چقماق سے آگ نکالنا۔ یعنی ان گھوڑوں کی قسم جن کی رگڑ سے پتھروں سے آگ نکلتی ہے، جیسے چقماق سے نکلتی ہے۔
پھر صبح کے وقت دھاوا بولنے والوں کی قسم.*
____________________
* مُغِيرَاتٌ، أَغَارَ يُغِيرُ سے ہے، شب خون مارنے یا دھاوا بولنے والے۔ صُبْحًا صبح کے وقت، عرب میں عام طور پر حملہ اسی وقت کیا جاتا تھا، شب خون تو وہ مارتے ہیں جو فوجی گھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں، لیکن اس کی نسبت گھوڑوں کی طرف اس لئے کی ہے کہ دھاوا بولنے میں فوجیوں کے یہ بہت زیادہ کام آتے ہیں۔
پس اس وقت گرد وغبار اڑاتے ہیں
____________________
* أَثَارَ، اڑانا۔ نَقْعٌ، گردوغبار۔ یعنی یہ گھوڑے جس وقت تیزی سے دوڑتے یا دھاوا بولتے ہیں تو اس جگہ پر گرد وغبار چھا جاتا ہے۔
پھر اسی کے ساتھ فوجیوں کے درمیان گھس جاتے ہیں.*
____________________
* فَوَسَطْنَ، درمیان میں گھس جاتے ہیں۔ اس وقت، یا حالت گرد وغبار میں۔ جَمْعًا دشمن کے لشکر۔ مطلب ہے کہ اس وقت، یا جب کہ فضا گرد وغبار سے اٹی ہوئی ہے، یہ گھوڑے دشمن کے لشکروں میں گھس جاتے ہیں اور گھمسان کی جنگ کرتے ہیں۔
یقیناً انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے.*
____________________
* یہ جواب قسم ہے۔ انسان سے مراد کافر، یعنی بعض افراد ہیں۔ كَنُودٌ بمعنی كَفُورٍ، ناشکرا۔
اور یقیناً وه خود بھی اس پر گواه ہے.*
____________________
* یعنی انسان خود بھی اپنی ناشکری کی گواہی دیتا ہے۔ بعض لَشَهِيدٌ کافاعل اللہ کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن امام شوکانی نے پہلے مفہوم کو راجح قرار دیا ہے، کیوں کہ مابعد کی آیات میں ضمیر کا مرجع انسان ہی ہے۔ اس لئے یہاں بھی انسان ہی ہونا زیادہ صحیح ہے۔
یہ مال کی محنت میں بھی بڑا سخت ہے.*
____________________
* خَيْرٌ سے مراد مال ہے، جیسے «إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ» (البقرة :180 ) میں ہے معنی واضح ہیں۔ ایک دوسرا مفہوم یہ ہے کہ نہایت حریص اور بخیل ہے جو مال کی شدید محبت کا لازمی نتیجہ ہے۔
کیا اسے وه وقت معلوم نہیں جب قبروں میں جو (کچھ) ہے نکال لیا جائے گا.*
____________________
* بُعْثِرَ، نُثِرَ وَبُعِثَ یعنی قبروں کے مردوں کو زندہ کرکے اٹھا کھڑا کردیا جائے گا۔
اور سینوں کی پوشیده باتیں ظاہر کر دی جائیں گی.*
____________________
* حُصِّلَ، مُيِّزَ وَبُيِّنَ یعنی سینوں کی باتوں کو ظاہر اور کھول دیا جائے گا۔
بیشک ان کا رب اس دن ان کے حال سے پورا باخبر ہوگا.*
____________________
* یعنی جو رب ان کو قبروں سے نکال لے گا، ان کے سینوں کے رازوں کو ظاہرکردے گا، اس کے متعلق ہر شخص جان سکتا ہے کہ وہ کتنا باخبر ہے؟ اور اس سے کوئی چیز مخفی نہیں رہ سکتی۔ چنانچہ پھر وہ ہر ایک کو اس کے عملوں کے مطابق اچھی یا بری جزا دے گا۔ یہ گویا ان اشخاص کو تنبیہ ہےجو رب کی نعمتیں تو استعمال کرتے ہیں، لیکن اس کا شکر ادا کرنےکے بجائے، اس کی ناشکری کرتے ہیں۔ اسی طرح مال کی محبت میں گرفتار ہو کر مال کے وہ حقوق ادا نہیں کرتے جو اللہ نے اس میں دوسرے لوگوں کے رکھے ہیں۔
سورة العاديات
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورة (العاديَات) من السُّوَر المكية، نزلت بعد سورة (العصر)، وقد افتُتحت بقَسَم الله عز وجل بـ(العاديَات)؛ وهي: خيلُ الغُزَاة، أو رواحلُ الحَجيج، وذكَّرتْ بالآخرة، وذمَّتْ خِصالًا تؤدي بصاحبها إلى الخسران والنِّيران؛ منها الجحود، والطَّمَعُ في هذه الدنيا ومَلذَّاتها وشهواتها.

ترتيبها المصحفي
100
نوعها
مكية
ألفاظها
40
ترتيب نزولها
14
العد المدني الأول
11
العد المدني الأخير
11
العد البصري
11
العد الكوفي
11
العد الشامي
11

* سورة (العاديَات):

سُمِّيت سورة (العاديَات) بهذا الاسم؛ لافتتاحها بقَسَمِ الله عزَّ وجلَّ بـ(العاديَات)؛ قال تعالى: {وَاْلْعَٰدِيَٰتِ ضَبْحٗا} [العاديات: 1].

1. القَسَم على جحود الإنسان (١-٨).

2. مشهد البعث والحشر (٩-١١).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (9 /299).

التذكيرُ بالآخرة، وذمُّ الخصالِ التي تؤدي إلى الخسران والنِّيران.

يقول ابنُ عاشور رحمه الله عن مقاصدها: «ذمُّ خصالٍ تفضي بأصحابها إلى الخسران في الآخرة، وهي خصالٌ غالية على المشركين والمنافقين، ويراد تحذيرُ المسلمين منها، ووعظُ الناس بأن وراءهم حسابًا على أعمالهم بعد الموت؛ ليتذكرَه المؤمن، ويُهدَّد به الجاحد.

وأُكِّد ذلك كلُّه بأن افتُتح بالقَسَم، وأدمج في القَسَم التنويه بخيلِ الغزاة، أو رواحلِ الحجيج». "التحرير والتنوير" لابن عاشور (30 /498).