ترجمة سورة التكوير

الترجمة الأردية

ترجمة معاني سورة التكوير باللغة الأردية من كتاب الترجمة الأردية.
من تأليف: محمد إبراهيم جوناكري .

جب سورج لپیٹ لیا جائے گا.
اور جب ستارے بے نور ہو جائیں گی.*
____________________
* یعنی جس طرح سر پر عمامہ لپیٹا جاتا ہے، اس طرح سورج کے وجود کو لپیٹ کر پھینک دیا جائے گا۔ جس سے اس کی روشنی از خود ختم ہو جائے گی۔ حدیث میں ہے الشمس والقمر مكوران بوم القيامة ۔ ( صحيح بخاري، بدء الخلق، باب صفة الشمس والقمر بحسبان) (قیامت والے دن چاند اور سورج لپیٹ دیئے جائیں گے)۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ لپیٹ کر ان دونوں کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا تاکہ مشرکین مزید ذلیل وخوار ہوں جو ان کی عبادت کرتے تھے۔ (فتح الباری، باب مذکور) ۔
**- دوسرا ترجمہ ہےجھڑ کر گر جائیں گے۔ یعنی آسمان پر ان کا وجود ہی نہیں رہے گا۔
اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے.*
____________________
* یعنی انہیں زمین سے اکھیڑ کر ہواؤں میں چلا دیا جائے گا اور وہ دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑیں گے۔
اور جب دس ماه کی حاملہ اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں.*
____________________
- عِشَارٌ، عُشَراءُ کی جمع ہے، حمل والیاں یعنی گابھن اونٹیناں، جب ان کا حمل دس مہینوں کا ہو جاتا ہےتو عربوں میں یہ بہت نفیس اور قیمتی سمجھیں جاتی تھیں۔ جب قیامت برپا ہوگی تو ایسا ہولناک منظر ہوگا کہ اگر کسی کے پاس اس قسم کی قیمتی اونٹنی بھی ہوں گی تو وہ ان کی بھی پروا نہیں کرے گا۔
اور جب وحشی جانور اکھٹے کیے جائیں گے.*
____________________
* یعنی انہیں بھی قیامت والے دن جمع کیا جائے گا۔
اور جب سمندر بھڑکائے جائیں گے.*
____________________
* یعنی ان میں اللہ کے حکم سے آگ بھڑک اٹھے گی۔
اور جب جانیں (جسموں سے) ملا دی جائیں گی.*
____________________
* اس کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ زیادہ قرین قیاس یہ معلوم ہوتاہے کہ ہر انسان کو اس کے ہم مذہب وہم مشرب کےساتھ ملا دیا جائے گا۔ مومن کو مومنوں کےساتھ اور بدکو بدوں کے ساتھ، یہودی کو یہودیوں کے ساتھ اور عیسائی کو عیسائیوں کے ساتھ، وَعَلَى هَذَا الْقِيَاسِ ۔
اور جب زنده گاڑی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا.
کہ کس گناه کی وجہ سے وه قتل کی گئی؟*
____________________
* اس طرح دراصل قاتل کو سرزنش کی جائے گی کیونکہ اصل مجرم تو وہی ہوگا نہ کہ موءدۃ جس سے بظاہر سوال ہوگا۔
اور جب نامہٴ اعمال کھول دیئے جائیں گے.*
____________________
* موت کے وقت یہ صحیفے لپیٹ دیئے جاتے ہیں، پھر قیامت والے دن حساب کےلئے کھول دیئے جائیں گے، جنہیں ہر شخص دیکھ لے گا بلکہ ہاتھوں میں پکڑا دیئے جائیں گے ۔
اور جب آسمان کی کھال اتار لی جائے گی.*
____________________
* یعنی وہ اس طرح ادھیڑ دیئے جائیں گےجس طرح چھت ادھیڑ دی جاتی ہے۔
اور جب جہنم بھڑکائی جائے گی.
اور جب جنت نزدیک کر دی جائے گی.
تو اس دن ہر شخص جان لے گا جو کچھ لے کر آیا ہوگا.*
____________________
* یہ جواب ہے یعنی جب مذکورہ امور ظہور پذیر ہوں گے، جن میں سے پہلے چھ امور کا تعلق دنیا سے ہے اور دوسرے چھ امور کا آخرت سے۔ اس وقت ہر ایک کے سامنے اس کی حقیقت آجائے گی۔
میں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے.
چلنے پھرنے والے چھپنے والے ستاروں کی.*
____________________
* اس سے مراد ستارے خُنَّسٌ، خَنَسَ سے ہے جس کے معنی پیچھےہٹنے کے ہیں۔ یہ ستارے دن کے وقت اپنے منظر سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور نظر نہیں آتے۔ اور یہ زخل، مشتری، مریخ، زہرہ، عطارد ہیں، یہ خاص طور پر سورج کے رخ پر ہوتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ سارے ہی ستارےمراد ہیں، کیوں کہ سب ہی اپنے غائب ہونے کی جگہ پر غائب ہو جاتے ہیں یا دن کو چھپے رہتے ہیں الْجَوَارِ چلنے والے، الْكُنَّسِ چھپ جانے والے، جیسے ہرن اپنے مکان اور مسکن میں چھپ جاتا ہے۔
اور رات کی جب جانے لگے.*
____________________
* عَسْعَسَ، اضداد میں سے ہے، یعنی آنے اور جانے دونوں معنوں میں اس کا استعمال ہوتا ہے، تاہم یہاں جانے کے معنی میں ہے۔
اور صبح کی جب چمکنے لگے.*
____________________
* یعنی جب اس کا ظہور وطلوع ہو جائے، یا وہ پھٹ اور نکل آئے۔
یقیناً یہ ایک بزرگ رسول کا کہا ہوا ہے.*
____________________
* اس لئے وہ اسے اللہ کی طرف لے کر آیا ہے۔ مراد حضرت جبرائیل (عليه السلام) ہیں۔
جو قوت واﻻ ہے*، عرش والے (اللہ) کے نزدیک بلند مرتبہ ہے.
____________________
* یعنی جو کام اس کےسپرد کیاجائے، اسے پوری قوت سے کرتا ہے۔
جس کی (آسمانوں میں) اطاعت کی جاتی ہے اورامین* ہے.
____________________
* یعنی فرشتوں کے درمیان اس کی اطاعت کی جاتی ہے۔ وہ فرشتوں کا مرجع اور مطاع ہے نیز وحی کےسلسلے میں امین ہے۔
اور تمہارا ساتھی دیوانہ نہیں ہے.*
____________________
* یہ خطاب اہل مکہ سے ہے اور صاحب مراد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) ہیں۔ یعنی تم جو گمان رکھتے ہو کہ تمہارا ہم نسب اور ہم وطن ساتھ ساتھی، ( محمد صلى الله عليه وسلم) دیوانہ ہے ۔ نعوذ باللہ ۔ ایسا نہیں ہے، ذرا قرآن پڑھ کر تو دیکھوکہ کیا کوئی دیوانہ ایسے معارف وحقائق بیان کر سکتا ہے اور گزشتہ قوموں کے صحیح صحیح حالات بتلا سکتا ہے جو اس قرآن میں بیان کئے گئے ہیں۔
اس نے اس (فرشتے) کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے.*
____________________
* یہ پہلے ذکر گزر چکا ہے کہ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت جبرائیل کو دو مرتبہ ان کی اصل حالت میں دیکھا ہے، جن میں سے ایک کا یہاں ذکر ہے۔ یہ ابتدائے نبوت کا واقعہ ہے، اس وقت حضرت جبرائیل (عليه السلام) کے چھ سو پر تھے، جنہوں نے آسمان کے کناروں کو بھر دیا تھا۔ دوسری مرتبہ معراج کے موقعے پر دیکھا۔ جیسا کہ سورۂ نجم میں تفصیل گزر چکی ہے۔
اور یہ غیب کی باتوں کو بتلانے میں بخیل بھی نہیں.*
____________________
* یہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی بابت وضاحت کی جا رہی ہے کہ آپ کو جن باتوں کی اطلاع دی جاتی ہے، جو احکام وفرائض آپ کو بتلائے جاتے ہیں، ان میں سےکوئی بات آپ اپنے پاس نہیں رکھتے بلکہ فریضۂ رسالت کی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے ہر بات اور ہر حکم لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں۔
اور یہ قرآن شیطان مردود کا کلام نہیں.*
____________________
* جس طرح نجومیوں کے پاس شیطان آتے ہیں اور آسمانوں کی بعض چوری چھپی باتیں ادھوری شکل میں انہیں بتلا دیتے ہیں۔ قرآن ایسا نہیں ہے۔
پھر تم کہاں جا رہے ہو.*
____________________
* یعنی کیوں اس سےاعراض کرتے ہو ؟ اور اس کی اطاعت نہیں کرتے ؟
یہ تو تمام جہان والوں کے لئے نصیحت نامہ ہے.
(بالخصوص) اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی راه پر چلنا چاہے.
اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے کچھ نہیں چاه سکتے.*
____________________
* یعنی تمہاری چاہت، اللہ کی توفیق پر منحصر ہے، جب تک تمہاری چاہت کے ساتھ اللہ کی مشیت اور اس کی توفیق بھی شامل نہیں ہوگی، اس وقت تک تم سیدھا راستہ بھی اختیار نہیں کر سکتے۔ یہ وہی مضمون ہے جو إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ (القصص: 56) وغیرہ آیات میں بیان ہوا ہے۔
سورة التكوير
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورة (التَّكْوير) من السُّوَر المكية، نزلت بعد سورة (المَسَد)، وهي من السُّوَر التي شيَّبتْ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم؛ كما صح في الأثر؛ وذلك لِما أخبَرتْ عنه من الأهوال التي تسبق يومَ القيامة؛ تخويفًا للكفار من عذاب الله الواقع بهم إن بَقُوا على كفرهم، وقد خُتِمت بحقيقةِ الوحي، وإثباتِ مجيئه من عند الله عز وجل.

ترتيبها المصحفي
81
نوعها
مكية
ألفاظها
104
ترتيب نزولها
7
العد المدني الأول
29
العد المدني الأخير
29
العد البصري
29
العد الكوفي
29
العد الشامي
29

* سورة (التَّكْوير):

سُمِّيت سورة (التَّكْوير) بهذا الاسم؛ لافتتاحها بقوله تعالى: {إِذَا اْلشَّمْسُ كُوِّرَتْ} [التكوير: 1].

سورة (التَّكْوير) من السُّوَر التي شيَّبتْ رسول الله صلى الله عليه وسلم:

عن ابنِ عباسٍ رضي الله عنهما، قال: «قال أبو بكرٍ الصِّدِّيقُ رضي الله عنه لرسولِ اللهِ: يا رسولَ اللهِ، أراكَ قد شِبْتَ! قال: «شيَّبتْني هُودٌ، والواقعةُ، والمُرسَلاتُ، و{عَمَّ يَتَسَآءَلُونَ}، و{إِذَا اْلشَّمْسُ كُوِّرَتْ}». أخرجه الحاكم (3314).

* سورة (التَّكْوير) من السُّوَر التي وصفت أحداثَ يوم القيامة بدقة؛ لذا كان النبي صلى الله عليه وسلم يدعو الصحابةَ إلى قراءتها:

عن عبدِ اللهِ بن عُمَرَ رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مَن سَرَّه أن ينظُرَ إلى يومِ القيامةِ كأنَّه رأيَ عينٍ، فَلْيَقرأْ: {إِذَا اْلشَّمْسُ كُوِّرَتْ}، و{إِذَا اْلسَّمَآءُ اْنفَطَرَتْ}، و{إِذَا اْلسَّمَآءُ اْنشَقَّتْ}». أخرجه الترمذي (٣٣٣٣).

1. حقيقة القيامة (١-١٤).

2. حقيقة الوحي (١٥-٢٩).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (9 /49).

يقول ابنُ عاشور رحمه الله: «اشتملت على تحقيقِ الجزاء صريحًا، وعلى إثبات البعث، وابتُدئ بوصفِ الأهوال التي تتقدمه، وانتُقل إلى وصف أهوال تقع عَقِبَه.

وعلى التنويه بشأن القرآن الذي كذَّبوا به؛ لأنه أوعَدهم بالبعث؛ زيادةً لتحقيقِ وقوع البعث إذ رمَوُا النبيَّ صلى الله عليه وسلم بالجنون، والقرآنَ بأنه يأتيه به شيطانٌ». "التحرر والتنوير" لابن عاشور (30 /140).