ترجمة سورة المدّثر

محمد جوناگڑھی - Urdu translation

ترجمة معاني سورة المدّثر باللغة الأردية من كتاب محمد جوناگڑھی - Urdu translation.

مدثّر


اے کپڑا اوڑھنے والے

کھڑا ہوجا اور آگاه کردے

اور اپنے رب ہی کی بڑائیاں بیان کر

اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر

ناپاکی کو چھوڑ دے

اور احسان کرکے زیاده لینے کی خواہش نہ کر

اور اپنے رب کی راه میں صبر کر

پس جب کہ صور میں پھونک ماری جائے گی

تو وه دن بڑا سخت دن ہوگا

جو کافروں پر آسان نہ ہوگا

مجھے اور اسے چھوڑ دے جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ہے

اور اسے بہت سا مال دے رکھا ہے

اور حاضر باش فرزند بھی

اور میں نے اسے بہت کچھ کشادگی دے رکھی ہے

پھر بھی اس کی چاہت ہے کہ میں اسے اور زیاده دوں

نہیں نہیں، وه ہماری آیتوں کا مخالف ہے

عنقریب میں اسے ایک سخت چڑھائی چڑھاؤں گا

اس نے غور کرکے تجویز کی

اسے ہلاکت ہو کیسی (تجویز) سوچی؟

وه پھر غارت ہو کس طرح اندازه کیا

اس نے پھر دیکھا

پھر تیوری چڑھائی اور منھ بنایا

پھر پیچھے ہٹ گیا اور غرور کیا

اور کہنے لگا تو یہ صرف جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے

سوائے انسانی کلام کے کچھ بھی نہیں ہے

میں عنقریب اسے دوزخ میں ڈالوں گا

اور تجھے کیا خبر کہ دوزخ کیا چیز ہے؟

نہ وه باقی رکھتی ہے نہ چھوڑتی ہے

کھال کو جھلسا دیتی ہے

اور اس میں انیس (فرشتے مقرر) ہیں

ہم نے دوزخ کے داروغے صرف فرشتے رکھے ہیں۔ اور ہم نے ان کی تعداد صرف کافروں کی آزمائش کے لیے مقرر کی ہے تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں، اوراہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہو جائے اور اہل کتاب اور اہل ایمان شک نہ کریں اور جن کے دلوں میں بیماری ہے وه اور کافر کہیں کہ اس بیان سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراه کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، یہ تو کل بنی آدم کے لیے سراسر پند ونصیحت ہے

سچ کہتا ہوں قسم ہے چاند کی

اور رات کی جب وه پیچھے ہٹے

اور صبح کی جب کہ روشن ہو جائے

کہ (یقیناً وه جہنم) بڑی چیزوں میں سے ایک ہے

بنی آدم کو ڈرانے والی

(یعنی) اسے جو تم میں سے آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے ہٹنا چاہے

ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے

مگر دائیں ہاتھ والے

کہ وه بہشتوں میں (بیٹھے ہوئے) گناه گاروں سے

سوال کرتے ہوں گے

تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈاﻻ

وه جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے

نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے

اور ہم بحﺚ کرنے والے (انکاریوں) کا ساتھ دے کر بحﺚ مباحثہ میں مشغول رہا کرتے تھے

اور روز جزا کو جھٹلاتے تھے

یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی

پس انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی

انہیں کیا ہو گیا ہے؟ کہ نصیحت سے منھ موڑ رہے ہیں

گویا کہ وه بِدکے ہوئے گدھے ہیں

جو شیر سے بھاگے ہوں

بلکہ ان میں سے ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے کھلی ہوئی کتابیں دی جائیں

ہرگز ایسا نہیں (ہوسکتا بلکہ) یہ قیامت سے بے خوف ہیں

سچی بات تو یہ ہے کہ یہ (قرآن) ایک نصیحت ہے

اب جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے

اور وه اس وقت نصیحت حاصل کریں گے جب اللہ تعالیٰ چاہے، وه اسی ﻻئق ہے کہ اس سے ڈریں اور اس ﻻئق بھی کہ وه بخشے
سورة المدثر
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورة (المُدثِّر) من السُّوَر المكية، نزلت بعد سورة (المُزمِّل)، وقد جاء فيها أمرُ النبي صلى الله عليه وسلم بدعوة الخَلْقِ إلى الإيمان، وتقريرُ صعوبة يوم القيامة على أهل الكفر والعصيان، وتهديدُ الوليد بن المغيرة بنقضِ القرآن، وبيانُ عدد زبانية النِّيران، وأن كلَّ أحد رهنُ الإساءة والإحسان، ومَلامةُ الكفار على إعراضهم عن الإيمان، وذِكْرُ وعدِ الكريم بالرحمة والغفران.

ترتيبها المصحفي
74
نوعها
مكية
ألفاظها
256
ترتيب نزولها
4
العد المدني الأول
55
العد المدني الأخير
55
العد البصري
56
العد الكوفي
56
العد الشامي
55

قوله تعالى: {يَٰٓأَيُّهَا اْلْمُدَّثِّرُ ١ قُمْ فَأَنذِرْ ٢ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ} [المدثر: 1-3]:

عن جابرِ بن عبدِ اللهِ رضي الله عنهما، قال: «قال ﷺ: جاوَرْتُ بحِرَاءٍ، فلمَّا قضَيْتُ جِواري، هبَطْتُ، فنُودِيتُ، فنظَرْتُ عن يميني فلَمْ أرَ شيئًا، ونظَرْتُ عن شِمالي فلَمْ أرَ شيئًا، ونظَرْتُ أمامي فلَمْ أرَ شيئًا، ونظَرْتُ خَلْفي فلَمْ أرَ شيئًا، فرفَعْتُ رأسي فرأَيْتُ شيئًا، فأتَيْتُ خديجةَ، فقلتُ: دَثِّرُوني، وصُبُّوا عليَّ ماءً باردًا، قال: فدثَّرُوني، وصَبُّوا عليَّ ماءً باردًا، قال: فنزَلتْ: {يَٰٓأَيُّهَا اْلْمُدَّثِّرُ ١ قُمْ فَأَنذِرْ ٢ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ} [المدثر: 1-3]». أخرجه البخاري (٤٩٢٢).

* قوله تعالى: {ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدٗا} [المدثر: 11]:

عن ابنِ عباسٍ رضي الله عنهما: «أنَّ الوليدَ بنَ المُغيرةِ جاء إلى النبيِّ صلى الله عليه وسلم، فقرَأَ عليه القرآنَ، فكأنَّه رَقَّ له، فبلَغَ ذلك أبا جهلٍ، فأتاه فقال: يا عَمِّ، إنَّ قومَك يرَوْنَ أن يَجمَعوا لك مالًا، قال: لِمَ؟ قال: ليُعطُوكَه؛ فإنَّك أتَيْتَ مُحمَّدًا لِتَعرَّضَ لِما قِبَلَه، قال: قد عَلِمتْ قُرَيشٌ أنِّي مِن أكثَرِها مالًا! قال: فقُلْ فيه قولًا يبلُغُ قومَك أنَّك مُنكِرٌ له، أو أنَّك كارهٌ له، قال: وماذا أقول؟! فواللهِ، ما فيكم رجُلٌ أعلَمُ بالأشعارِ منِّي، ولا أعلَمُ برَجَزِه ولا بقَصِيدِه منِّي، ولا بأشعارِ الجِنِّ، واللهِ، ما يُشبِهُ الذي يقولُ شيئًا مِن هذا، وواللهِ، إنَّ لِقولِه الذي يقولُ حلاوةً، وإنَّ عليه لَطلاوةً، وإنَّه لَمُثمِرٌ أعلاه، مُغدِقٌ أسفَلُه، وإنَّه لَيعلو، وما يُعلَى، وإنَّه لَيَحطِمُ ما تحته، قال: لا يَرضَى عنك قومُك حتى تقولَ فيه، قال: فدَعْني حتى أُفكِّرَ، فلمَّا فكَّرَ، قال: هذا سِحْرٌ يُؤثَرُ، يأثُرُه مِن غيرِه؛ فنزَلتْ: {ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدٗا} [المدثر: 11]». أخرجه الحاكم (3872).

* سورة (المُدثِّر):

سُمِّيت سورة (المُدثِّر) بهذا الاسم؛ لوصفِ الله نبيَّه بهذا اللفظ في أوَّل السورة.

و(المُدثِّر): هو لابِسُ الدِّثار، وفي ذلك إشارةٌ إلى حديثِ جابرِ بن عبدِ اللهِ رضي الله عنهما، قال: «قال ﷺ: جاوَرْتُ بحِرَاءٍ، فلمَّا قضَيْتُ جِواري، هبَطْتُ، فنُودِيتُ، فنظَرْتُ عن يميني فلَمْ أرَ شيئًا، ونظَرْتُ عن شِمالي فلَمْ أرَ شيئًا، ونظَرْتُ أمامي فلَمْ أرَ شيئًا، ونظَرْتُ خَلْفي فلَمْ أرَ شيئًا، فرفَعْتُ رأسي فرأَيْتُ شيئًا، فأتَيْتُ خديجةَ، فقلتُ: دَثِّرُوني، وصُبُّوا عليَّ ماءً باردًا، قال: فدثَّروني، وصَبُّوا عليَّ ماءً باردًا، قال: فنزَلتْ: {يَٰٓأَيُّهَا اْلْمُدَّثِّرُ ١ قُمْ فَأَنذِرْ ٢ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ} [المدثر: 1-3]». أخرجه البخاري (٤٩٢٢).

1. إرشاد النبيِّ صلى الله عليه وسلم في بَدْءِ الدعوة (١-١٠).

2. تهديد زعماءِ الكفر (١١-٣٠).

3. الحِكْمة في اختيار عدد خَزَنة جهنَّم (٣١-٣٧).

4. الحوار بين أصحاب اليمين وبين المجرِمين (٣٨-٥٦).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (8 /454).

يقول ابن عاشور عما جاء فيها من مقاصدَ:

«تكريمُ النبيِّ صلى الله عليه وسلم، والأمر بإبلاغ دعوة الرسالة.
وإعلان وَحْدانية الله بالإلهية.
والأمر بالتطهُّر الحِسِّي والمعنوي.
ونبذ الأصنام.
والإكثار من الصدقات.
والأمر بالصبر.
وإنذار المشركين بهول البعث.
وتهديد مَن تصدى للطعن في القرآن، وزعم أنه قولُ البشر.
ووصف أهوال جهنَّم.
والرد على المشركين الذين استخَفُّوا بها، وزعموا قلةَ عدد حفَظتِها.
وتَحدِّي أهل الكتاب بأنهم جهلوا عددَ حفَظتِها.
وتأييسهم من التخلص من العذاب.
وتمثيل ضلالهم في الدنيا.
ومقابلة حالهم بحال المؤمنين أهلِ الصلاة، والزكاة، والتصديق بيوم الجزاء». "التحرير والتنوير" لابن عاشور (29 /293).