ترجمة سورة النبأ

محمد جوناگڑھی - Urdu translation

ترجمة معاني سورة النبأ باللغة الأردية من كتاب محمد جوناگڑھی - Urdu translation.

نبا


یہ لوگ کس چیز کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں

اس بڑی خبر کے متعلق

جس کے بارے میں یہ اختلاف کر رہے ہیں

یقیناً یہ ابھی جان لیں گے

پھر بالیقین انہیں بہت جلد معلوم ہو جائے گا

کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا؟

اور پہاڑوں کو میخیں (نہیں بنایا؟)

اور ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا

اور ہم نے تمہاری نیند کو آرام کا سبب بنایا

اور رات کو ہم نے پرده بنایا

اور دن کو ہم نے وقت روزگار بنایا

اور تمہارے اوپر ہم نے سات مضبوط آسمان بنائے

اور ایک چمکتا ہوا روشن چراغ (سورج) پیدا کیا

اور بدلیوں سے ہم نے بکثرت بہتا ہوا پانی برسایا

تاکہ اس سے اناج اور سبزه اگائیں

اور گھنے باغ (بھی اگائیں)

بیشک فیصلہ کے دن کا وقت مقرر ہے

جس دن کہ صور میں پھونکا جائے گا۔ پھر تم فوج در فوج چلے آؤ گے

اور آسمان کھول دیا جائے گا تو اس میں دروازے دروازے ہو جائیں گے

اور پہاڑ چلائے جائیں گے پس وه سراب ہو جائیں گے

بیشک دوزخ گھات میں ہے

سرکشوں کا ٹھکانہ وہی ہے

اس میں وه مدتوں تک پڑے رہیں گے

نہ کبھی اس میں خنکی کا مزه چکھیں گے، نہ پانی کا

سوائے گرم پانی اور (بہتی) پیﭗ کے

(ان کو) پورا پورا بدلہ ملے گا

انہیں تو حساب کی توقع ہی نہ تھی

اور بے باکی سے ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے تھے

ہم نے ہر ایک چیز کو لکھ کر شمار کر رکھا ہے

اب تم (اپنے کیے کا) مزه چکھو ہم تمہارا عذاب ہی بڑھاتے رہیں گے

یقیناً پرہیزگار لوگوں کے لئے کامیابی ہے

باغات ہیں اور انگور ہیں

اور نوجوان کنواری ہم عمر عورتیں ہیں

اور چھلکتے ہوئے جام شراب ہیں

وہاں نہ تو وه بیہوده باتیں سنیں گے اور نہ جھوٹی باتیں سنیں گے

(ان کو) تیرے رب کی طرف سے (ان کے نیک اعمال کا) بدلہ ملے گا جو کافی انعام ہوگا

(اس رب کی طرف سے ملے گا جو کہ) آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا پروردگار ہے اور بڑی بخشش کرنے واﻻ ہے۔ کسی کو اس سے بات چیت کرنے کا اختیار نہیں ہوگا

جس دن روح اور فرشتے صفیں باندھ کر کھڑے ہوں گے تو کوئی کلام نہ کر سکے گا مگر جسے رحمٰن اجازت دے دے اور وه ٹھیک بات زبان سے نکالے

یہ دن حق ہے اب جو چاہے اپنے رب کے پاس (نیک اعمال کر کے) ٹھکانا بنالے

ہم نے تمہیں عنقریب آنے والے عذاب سے ڈرا دیا (اور چوکنا کر دیا) ہے۔ جس دن انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی کو دیکھ لے گا اور کافر کہے گا کہ کاش! میں مٹی ہو جاتا
سورة النبأ
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورة (النَّبأ) من السُّوَر المكية، وقد جاءت بإثباتِ وقوع يوم القيامة، ودلَّلتْ على صدقِ ذلك بالآيات الكونية التي تملأ هذا الكونَ؛ فالله الذي خلَق هذا الكون بآياته العظام وسيَّره بأبدَعِ نظام قادرٌ على بعثِ الناس، ومجازاتهم على أعمالهم؛ فللعاصين النارُ جزاءً وِفاقًا، وللمتقين الجنةُ جزاءً من ربك عطاءً حسابًا، وسورة (النبأ) من السُّوَر التي شيَّبتْ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم؛ لما ذكَرتْ من مشاهدِ يوم القيامة.

ترتيبها المصحفي
78
نوعها
مكية
ألفاظها
174
ترتيب نزولها
80
العد المدني الأول
40
العد المدني الأخير
40
العد البصري
41
العد الكوفي
40
العد الشامي
40

* سورة (النَّبأ):

سُمِّيت سورة (النَّبأ) بهذا الاسم؛ لوقوع لفظ (النَّبأ) في فاتحتها؛ وهو: خبَرُ الساعة والبعث الذي يسأل الناسُ عن وقوعه.

* وتُسمَّى كذلك بسورة (عمَّ)، أو (عمَّ يتساءلون)، أو (التساؤل)؛ لافتتاحِها بها.

سورة (النَّبأ) من السُّوَر التي شيَّبتْ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم:

عن ابنِ عباسٍ رضي الله عنهما، قال: «قال أبو بكرٍ الصِّدِّيقُ رضي الله عنه لرسولِ اللهِ: يا رسولَ اللهِ، أراكَ قد شِبْتَ! قال: «شيَّبتْني هُودٌ، والواقعةُ، والمُرسَلاتُ، و{عَمَّ يَتَسَآءَلُونَ}، و{إِذَا اْلشَّمْسُ كُوِّرَتْ}». أخرجه الحاكم (3314).

1. تساؤل المشركين عن النبأ (١-٥).

2. الآيات الكونية (٦-١٦).

3. أحداث يوم القيامة (١٧-٣٠).

4. جزاء المتقين (٣١-٤٠).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (9 /4).

يقول البقاعي: «مقصودها: الدلالةُ على أن يوم القيامة الذي كانوا مُجمِعين على نفيه، وصاروا بعد بعثِ النبي صلى الله عليه وسلم في خلافٍ فيه مع المؤمنين: ثابتٌ ثباتًا لا يحتمل شكًّا ولا خلافًا بوجه؛ لأن خالقَ الخَلْقِ - مع أنه حكيمٌ قادر على ما يريد - دبَّرهم أحسنَ تدبير، وبنى لهم مسكنًا وأتقَنه، وجعلهم على وجهٍ يَبقَى به نوعُهم من أنفسهم، بحيث لا يحتاجون إلى أمرٍ خارج يرونه، فكان ذلك أشَدَّ لأُلفتهم، وأعظَم لأُنْسِ بعضهم ببعض، وجعَل سَقْفَهم وفراشهم كافلَينِ لمنافعهم، والحكيم لا يترك عبيدَه - وهو تامُّ القدرة، كامل السلطان - يَمرَحون، يَبغِي بعضهم على بعض، ويأكلون خيرَه ويعبدون غيرَه، فكيف إذا كان حاكمًا؟! فكيف إذا كان أحكَمَ الحاكمين؟!
هذا ما لا يجوز في عقلٍ، ولا يخطر ببالٍ أصلًا؛ فالعلم واقع به قطعًا.
وكلٌّ من أسمائها واضحٌ في ذلك؛ بتأمُّل آيته، ومبدأ ذكرِه وغايته». "مصاعد النظر للإشراف على مقاصد السور" للبقاعي (3 /151).