ترجمة سورة عبس

محمد جوناگڑھی - Urdu translation

ترجمة معاني سورة عبس باللغة الأردية من كتاب محمد جوناگڑھی - Urdu translation.

عبس


وه ترش رو ہوا اور منھ موڑ لیا

(صرف اس لئے) کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا

تجھے کیا خبر شاید وه سنور جاتا

یا نصیحت سنتا اور اسے نصیحت فائده پہنچاتی

جو بے پرواہی کرتا ہے

اس کی طرف تو تو پوری توجہ کرتا ہے

حاﻻنکہ اس کے نہ سنورنے سے تجھ پر کوئی الزام نہیں

اور جو شخص تیرے پاس دوڑتا ہوا آتا ہے

اور وه ڈر (بھی) رہا ہے

تو اس سے بےرخی برتتا ہے

یہ ٹھیک نہیں قرآن تو نصیحت (کی چیز) ہے

جو چاہے اس سے نصیحت لے

(یہ تو) پر عظمت صحیفوں میں (ہے)

جو بلند وباﻻ اور پاک صاف ہے

ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہے

جو بزرگ اور پاکباز ہے

اللہ کی مار انسان پر کیسا ناشکرا ہے

اسے اللہ نے کس چیز سے پیدا کیا

(اسے) ایک نطفہ سے، پھر اندازه پر رکھا اس کو

پھر اس کے لئے راستہ آسان کیا

پھر اسے موت دی اور پھر قبر میں دفن کیا

پھر جب چاہے گا اسے زنده کر دے گا

ہرگز نہیں۔ اس نے اب تک اللہ کے حکم کی بجا آوری نہیں کی

انسان کو چاہئے کہ اپنے کھانے کو دیکھے

کہ ہم نے خوب پانی برسایا

پھر پھاڑا زمین کو اچھی طرح

پھر اس میں سے اناج اگائے

اور انگور اور ترکاری

اور زیتون اور کھجور

اور گنجان باغات

اور میوه اور (گھاس) چاره (بھی اگایا)

تمہارے استعمال وفائدے کے لئے اور تمہارے چوپایوں کے لئے

پس جب کہ کان بہرے کر دینے والی (قیامت) آجائے گی

اس دن آدمی اپنے بھائی سے

اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے

اور اپنی بیوی اور اپنی اوﻻد سے بھاگے گا

ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایسی فکر (دامنگیر) ہوگی جو اس کے لئے کافی ہوگی

اس دن بہت سے چہرے روشن ہوں گے

(جو) ہنستے ہوئے اور ہشاش بشاش ہوں گے

اور بہت سے چہرے اس دن غبار آلود ہوں گے

جن پر سیاہی چڑھی ہوئی ہوگی

وه یہی کافر بدکردار لوگ ہوں گے
سورة عبس
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورة (عبَسَ) من السُّوَر المكية، وقد نزلت في عتابِ الله نبيَّه صلى الله عليه وسلم في إعراضه عن ابنِ أمِّ مكتومٍ الأعمى، بسبب انشغاله مع صناديدِ قريش، وهذا العتاب لتعليم النبي صلى الله عليه وسلم المقارنةَ بين المصالح والمفاسد، وإعلاءٌ من شأن النبي صلى الله عليه وسلم، كما جاءت السورة على ذكرِ آيات الله ونِعَمه على خَلْقِه؛ مذكِّرةً إياهم بيوم (الصاخَّة)، حين ينقسم الناس إلى أهل جِنان، وأهل نيران.

ترتيبها المصحفي
80
نوعها
مكية
ألفاظها
133
ترتيب نزولها
24
العد المدني الأول
42
العد المدني الأخير
42
العد البصري
41
العد الكوفي
42
العد الشامي
40

* قوله تعالى: {عَبَسَ وَتَوَلَّىٰٓ ١ أَن جَآءَهُ اْلْأَعْمَىٰ ٢ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُۥ يَزَّكَّىٰٓ ٣ أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنفَعَهُ اْلذِّكْرَىٰٓ} [عبس: 1-4]:

عن عُرْوةَ، عن عائشةَ أمِّ المؤمنين رضي الله عنها، قالت: «أُنزِلتْ في ابنِ أمِّ مكتومٍ الأعمى»، قالت: «أتى النبيَّ ﷺ، فجعَلَ يقولُ: يا نبيَّ اللهِ، أرشِدْني! قالت: وعند النبيِّ ﷺ رجُلٌ مِن عُظَماءِ المشركين، فجعَلَ النبيُّ ﷺ يُعرِضُ عنه، ويُقبِلُ على الآخَرِ، فقال النبيُّ ﷺ: «يا فلانُ، أتَرى بما أقولُ بأسًا؟»، فيقولُ: لا؛ فنزَلتْ: {عَبَسَ وَتَوَلَّىٰٓ} [عبس: 1]». أخرجه ابن حبان (٥٣٥).

* سورة (عبَسَ):

سُمِّيت سورة (عبَسَ) بذلك؛ لقوله تعالى في أولها: {عَبَسَ وَتَوَلَّىٰٓ} [عبس: 1].

1. عتابُ المُحبِّ (١-١٦).

2. تفكُّر وتدبُّر (١٧-٣٢).
3. يومَك.. يومَك (٣٣-٤٢).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (9 /41).

عتابُ اللهِ نبيَّه صلى الله عليه وسلم عتابَ المُحبِّ؛ لتزكيةِ نفس النبي صلى الله عليه وسلم، ولتعليمه الموازنةَ بين مراتبِ المصالح والمفاسد، وفي حادثةِ عُبُوسِه صلى الله عليه وسلم في وجهِ الأعمى أوضَحُ الدلالة على ذلك.

ينظر: "مصاعد النظر للإشراف على مقاصد السور" للبقاعي (3 /157)، "التحرير والتنوير" لابن عاشور (30 /102).