ترجمة سورة الواقعة

محمد جوناگڑھی - Urdu translation

ترجمة معاني سورة الواقعة باللغة الأردية من كتاب محمد جوناگڑھی - Urdu translation.

واقعہ


جب قیامت قائم ہو جائے گی

جس کے واقع ہونے میں کوئی جھوٹ نہیں

وه پست کرنے والی اور بلند کرنے والی ہوگی

جبکہ زمین زلزلہ کے ساتھ ہلا دی جائے گی

اور پہاڑ بالکل ریزه ریزه کر دیے جائیں گے

پھر وه مثل پراگنده غبار کے ہو جائیں گے

اور تم تین جماعتوں میں ہو جاؤ گے

پس داہنے ہاتھ والے کیسے اچھے ہیں داہنے ہاتھ والے

اور بائیں ہاتھ والے کیا حال ہے بائیں ہاتھ والوں کا

اور جو آگے والے ہیں وه تو آگے والے ہی ہیں

وه بالکل نزدیکی حاصل کیے ہوئے ہیں

نعمتوں والی جنتوں میں ہیں

(بہت بڑا) گروه تو اگلے لوگوں میں سے ہوگا

اور تھوڑے سے پچھلے لوگوں میں سے

یہ لوگ سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر

ایک دوسرے کےسامنے تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے

ان کے پاس ایسے لڑکے جو ہمیشہ (لڑکے ہی) رہیں گے آمدورفت کریں گے

آبخورے اور جگ لے کر اور ایسا جام لے کر جو بہتی ہوئی شراب سے پر ہو

جس سے نہ سر میں درد ہو نہ عقل میں فتور آئے

اور ایسے میوے لیے ہوئے جو ان کی پسند کے ہوں

اور پرندوں کے گوشت جو انہیں مرغوب ہوں

اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں

جو چھپے ہوئے موتیوں کی طرح ہیں

یہ صلہ ہے ان کے اعمال کا

نہ وہاں بکواس سنیں گے اور نہ گناه کی بات

صرف سلام ہی سلام کی آواز ہوگی

اور داہنے ہاتھ والے کیا ہی اچھے ہیں داہنے ہاتھ والے

وه بغیرکانٹوں کی بیریوں

اور تہ بہ تہ کیلوں

اور لمبے لمبے سایوں

اور بہتے ہوئے پانیوں

اور بکثرت پھلوں میں

جو نہ ختم ہوں نہ روک لیے جائیں

اور اونچے اونچے فرشوں میں ہوں گے

ہم نے ان کی (بیویوں کو) خاص طور پر بنایا ہے

اور ہم نے انہیں کنواریاں بنا دیا ہے

محبت والیاں اور ہم عمر ہیں

دائیں ہاتھ والوں کے لیے ہیں

جم غفیر ہے اگلوں میں سے

اور بہت بڑی جماعت ہے پچھلوں میں سے

اور بائیں ہاتھ والے کیا ہیں بائیں ہاتھ والے

گرم ہوا اور گرم پانی میں (ہوں گے)

اورسیاه دھوئیں کے سائے میں

جو نہ ٹھنڈا ہے نہ فرحت بخش

بیشک یہ لوگ اس سے پہلے بہت نازوں میں پلے ہوئے تھے

اور بڑے بڑے گناہوں پر اصرار کرتے تھے

اور کہتے تھے کہ کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈی ہو جائیں گے تو کیا ہم پھر دوباره اٹھا کھڑے کیے جائیں گے

اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی؟

آپ کہہ دیجئے کہ یقیناً سب اگلے اور پچھلے

ضرور جمع کئے جائیں گے ایک مقرر دن کے وقت

پھر تم اے گمراہو جھٹلانے والو!

البتہ کھانے والے ہو تھوہر کا درخت

اور اسی سے پیٹ بھرنے والے ہو

پھر اس پر گرم کھولتا پانی پینے والے ہو

پھر پینے والے بھی پیاسے اونٹوں کی طرح

قیامت کے دن ان کی مہمانی یہ ہے

ہم ہی نے تم سب کو پیدا کیا ہے پھر تم کیوں باور نہیں کرتے؟

اچھا پھر یہ تو بتلاؤ کہ جو منی تم ٹپکاتے ہو

کیا اس کا (انسان) تم بناتے ہو یا پیدا کرنے والے ہم ہی ہیں؟

ہم ہی نے تم میں موت کو متعین کر دیا ہے اور ہم اس سے ہارے ہوئے نہیں ہیں

کہ تمہاری جگہ تم جیسے اور پیدا کر دیں اور تمہیں نئے سرے سے اس عالم میں پیدا کریں جس سے تم (بالکل) بےخبر ہو

تمہیں یقینی طور پر پہلی دفعہ کی پیدائش معلوم ہی ہے پھر کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے؟

اچھا پھر یہ بھی بتلاؤ کہ تم جو کچھ بوتے ہو

اسے تم ہی اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں

اگر ہم چاہیں تواسے ریزه ریزه کر ڈالیں اور تم حیرت کے ساتھ باتیں بناتے ہی ره جاؤ

کہ ہم پر تو تاوان ہی پڑ گیا

بلکہ ہم بالکل محروم ہی ره گئے

اچھا یہ بتاؤ کہ جس پانی کو تم پیتے ہو

اسے بادلوں سے بھی تم ہی اتارتے ہو یا ہم برساتے ہیں؟

اگر ہماری منشا ہو تو ہم اسے کڑوا زہر کردیں پھر تم ہماری شکرگزاری کیوں نہیں کرتے؟

اچھا ذرا یہ بھی بتاؤ کہ جو آگ تم سلگاتے ہو

اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم اس کے پیدا کرنے والے ہیں؟

ہم نے اسے سبب نصیحت اور مسافروں کے فائدے کی چیز بنایا ہے

پس اپنے بہت بڑے رب کے نام کی تسبیح کیا کرو

پس میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے گرنے کی

اور اگرتمہیں علم ہو تو یہ بہت بڑی قسم ہے

کہ بیشک یہ قرآن بہت بڑی عزت واﻻ ہے

جو ایک محفوظ کتاب میں درج ہے

جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں

یہ رب العالمین کی طرف سےاترا ہوا ہے

پس کیا تم ایسی بات کو سرسری (اور معمولی) سمجھ رہے ہو؟

اور اپنے حصے میں یہی لیتے ہو کہ جھٹلاتے پھرو

پس جبکہ روح نرخرے تک پہنچ جائے

اور تم اس وقت آنکھوں سے دیکھتے رہو

ہم اس شخص سے بہ نسبت تمہارے بہت زیاده قریب ہوتے ہیں لیکن تم نہیں دیکھ سکتے

پس اگر تم کسی کے زیرفرمان نہیں

اور اس قول میں سچے ہو تو (ذرا) اس روح کو تو لوٹاؤ

پس جو کوئی بارگاه الٰہی سے قریب کیا ہوا ہوگا

اسے تو راحت ہے اور غذائیں ہیں اور آرام والی جنت ہے

اور جو شحص داہنے (ہاتھ) والوں میں سے ہے

تو بھی سلامتی ہے تیرے لیے کہ تو داہنے والوں میں سے ہے

لیکن اگر کوئی جھٹلانے والوں گمراہوں میں سے ہے

تو کھولتے ہوئے گرم پانی کی مہمانی ہے

اور دوزخ میں جانا ہے

یہ خبر سراسر حق اور قطعاً یقینی ہے

پس تواپنے عظیم الشان پروردگار کی تسبیح کر
سورة الواقعة
معلومات السورة
الكتب
الفتاوى
الأقوال
التفسيرات

سورة (الواقعة) من السُّوَر المكية، نزلت بعد سورة (طه)، وقد جاءت بتذكيرِ الناس بوقوع يوم القيامة؛ للدَّلالة على عظمة الله عز وجل، وترهيبًا لهم من مخالفة أوامره، ودعوةً لهم إلى اتباع الدِّين الحق وتركِ الباطل، وخُتمت السورة الكريمة بتعظيمِ القرآن، وصدقِ أخباره وما جاء به، وقد أُثر عن النبي صلى الله عليه وسلم قراءتُه لها في صلاة الفجر.

ترتيبها المصحفي
56
نوعها
مكية
ألفاظها
380
ترتيب نزولها
46
العد المدني الأول
99
العد المدني الأخير
99
العد البصري
97
العد الكوفي
96
العد الشامي
99

* قوله تعالى: {فَلَآ أُقْسِمُ بِمَوَٰقِعِ اْلنُّجُومِ ٧٥ وَإِنَّهُۥ لَقَسَمٞ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ ٧٦ إِنَّهُۥ لَقُرْءَانٞ كَرِيمٞ ٧٧ فِي كِتَٰبٖ مَّكْنُونٖ ٧٨ لَّا يَمَسُّهُۥٓ إِلَّا اْلْمُطَهَّرُونَ ٧٩ تَنزِيلٞ مِّن رَّبِّ اْلْعَٰلَمِينَ ٨٠ أَفَبِهَٰذَا اْلْحَدِيثِ أَنتُم مُّدْهِنُونَ ٨١ وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ} [الواقعة: 75-82]:

عن عبدِ اللهِ بن عباسٍ رضي الله عنهما، قال: «مُطِرَ الناسُ على عهدِ النبيِّ ﷺ، فقال النبيُّ ﷺ: «أصبَحَ مِن الناسِ شاكرٌ، ومنهم كافرٌ، قالوا: هذه رحمةُ اللهِ، وقال بعضُهم: لقد صدَقَ نَوْءُ كذا وكذا»، قال: فنزَلتْ هذه الآيةُ: {فَلَآ أُقْسِمُ بِمَوَٰقِعِ اْلنُّجُومِ} [الواقعة: 75]، حتى بلَغَ: {وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ} [الواقعة: 82]». أخرجه مسلم (٧٣).

* سورة (الواقعة):

سُمِّيت هذه السورة بـ(الواقعة)؛ لافتتاحِها بهذا اللفظ، ولتسميةِ النبيِّ صلى الله عليه وسلم لها بذلك:

عن أبي بكرٍ الصِّدِّيقِ رضي الله عنه، قال: «سألتُ رسولَ اللهِ ﷺ: ما شيَّبَكَ؟ قال: «سورةُ هودٍ، والواقعةِ، و{عَمَّ يَتَسَآءَلُونَ}، و{إِذَا اْلشَّمْسُ كُوِّرَتْ}»». أخرجه الترمذي (٣٢٩٧).

و(الواقعةُ): اسمٌ من أسماءِ يوم القيامة.

* سورة (الواقعة) من السُّوَر التي شيَّبتْ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم:

عن أبي بكرٍ الصِّدِّيقِ رضي الله عنه، قال: «سألتُ رسولَ اللهِ ﷺ: ما شيَّبَكَ؟ قال: «سورةُ هودٍ، والواقعةِ، و{عَمَّ يَتَسَآءَلُونَ}، و{إِذَا اْلشَّمْسُ كُوِّرَتْ}»». أخرجه الترمذي (٣٢٩٧).

* أُثِر عن النبي صلى الله عليه وسلم قراءتُه لسورة (الواقعة) في صلاة الفجر:

عن جابرِ بن سَمُرةَ رضي الله عنه، قال: «كان رسولُ اللهِ ﷺ يُصلِّي الصَّلواتِ كنَحْوٍ مِن صلاتِكم التي تُصَلُّون اليومَ، ولكنَّه كان يُخفِّفُ، كانت صَلاتُه أخَفَّ مِن صَلاتِكم، وكان يَقرأُ في الفجرِ الواقعةَ، ونحوَها مِن السُّوَرِ». أخرجه أحمد (٢٠٩٩٥).

1. تحقيق القيامة (١-٥٦).

2. دلائلُ البعث والجزاء (٥٧-٧٤).

3. تعظيم القرآن، وصدقُ أخباره (٧٥-٩٦).

ينظر: "التفسير الموضوعي لسور القرآن الكريم" لمجموعة من العلماء (7 /598).

مقصدُ سورة (الواقعة) هو التذكيرُ بوقوع يوم القيامة وهَوْلِه، ووصفُ ما يحدُثُ به؛ لتخويف الناس وترهيبهم من معصية الله عز وجل ومخالفة أمره، وفي ذلك دعوةٌ لهم للرجوع إلى الحق، والاستجابة لأمر الله.

ويُبيِّن ابن عاشور محورَها فيقول: «هو التذكيرُ بيوم القيامة، وتحقيق وقوعه.

ووصفُ ما يَعرِض لهذا العالَمِ الأرضي عند ساعة القيامة.

ثم صفة أهل الجنة وبعض نعيمهم.

وصفة أهل النار وما هم فيه من العذاب، وأن ذلك لتكذيبهم بالبعث.

وإثبات الحشر والجزاء.

والاستدلال على إمكان الخَلْق الثاني بما أبدعه الله من الموجودات بعد أن لم تكن.

والاستدلال بدلائل قدرة الله تعالى.

والاستدلال بنزعِ الله الأرواحَ من الأجساد والناس كارهون لا يستطيع أحدٌ مَنْعَها من الخروج، على أن الذي قدَرَ على نزعها بدون مُدافعٍ قادرٌ على إرجاعها متى أراد على أن يُمِيتَهم.

وتأكيد أن القرآن منزلٌ من عند الله، وأنه نعمةٌ أنعم الله بها عليهم فلم يشكروها، وكذَّبوا بما فيه». "التحرير والتنوير" لابن عاشور (27 /280).